سب سے بہترین دن جب سورج طلوع ہوتا ہےجــــمعہ کا دن ہے

جمعـــہ کے دن فجـــر کی فرض نماز میں "سورہ سجــدہ" اور "سورہ دھــر" کی تلاوت کرنا صحیح مسلم: ٨٨٠ مســــــواک کرنا- صحیح البخاری-٨٨٠ مرد کا خـود بھی غســــــل کرنا اور بیـوی کو بھی غسـل کی تاکیـد کرنا- جامع الترمذی:٤٩٦ -حسن صاف ستھرے کپــــڑے پہننا- سنن ابوداؤد: ٣٤٧ خــــوشبو لگانا اور بالوں میں تیــل لگانا- صحیح البخاري: ٨٨٣ جــمعہ کے لئے پیدل چل کر جانا- سنن ابوداؤد :٣٤٥ جمعـہ کے لئے امام سے پہلے مسجــد میں حاضـر رہنا- سنن ابوداؤد: ٣٤٥ مسجــد میں داخل ہوتے ہی دو رکعت نفل(تحیة المسجد) ادا کرنا صحیح البخاری: ١١٦٧ خـطیب( امام) کے قریب بیٹھنا- سنن ابوداؤد: ٣٤٥ مقتدیوں کا خطبہ جمعہ غور سے اور خاموشی کے ساتھ سننا سنن ابوداؤد: ٣٤٥ دوران خطبہ فضول باتیـں اور فضول کام قطعاً نہ کرنا سنن ابوداؤد: ٣٤٥ امــام کا نمازِ جمعہ میں "سورہ اعلیٰ اور سورہ غاشیہ" یا "سورہ جمعہ و سورہ منافقون" کی تـلاوت کرنا صحیح مسلم: ٨٧٨- ٨٧٩   جـمعہ کے بعد مسجد میں ہی 6 یا 4 رکعت سنت ادا کرنا اور اگر گھر میں ادا کرنا چاہیں تو صرف 2 رکعت پڑھنا سنن ابی داود: ١١٣٠   کثـرت سے درود ابراہیمی پڑھنا صحیح مسلم : ٩١٢ سورة الکہف کی تلاوت کرنا 📚 صحیح الجامع-٦٤٧٠ جـمعہ کے دن صدقــــہ کا اہتمام کرناـ منصف عبدالرزاق:٥٥٥٨   جمعـــہ ادا کرنے کے بعد قیلولہ کرنا پھر کھانا کھانا

اور تیرا رب فیصلہ کر چکا ہے اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو

میں نے حرم میں ہر امام کو یہ آیات پڑھتے ہوئے بلک بلک کر روتے ہوئے دیکھا بہت مشکل سے آیات کو مکمل کرتے ہیں ہم بدقسمت اپنے ماں باپ کو بوجھ سمجھنے لگتے ہیں. ہمیں کامیاب انسان بنانے کے پیچھے ایک بوڑھے ضعیف باپ،اور ایک بوڑھی ماں"کی قیمتی جوانی ہوتی ہے... وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوٓا اِلَّآ اِيَّاهُ وَبِالْوَالِـدَيْنِ اِحْسَانًا ۚ اِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَـرَ اَحَدُهُمَآ اَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّـهُمَآ اُفٍّ وَّلَا تَنْـهَرْهُمَا وَقُلْ لَّـهُمَا قَوْلًا كَرِيْمًا (23) ترجمہ اور تیرا رب فیصلہ کر چکا ہے اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو، اور اگر تیرے سامنے ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اف بھی نہ کہو اور نہ انہیں جھڑکو اور ان سے ادب سے بات کرو۔ وَاخْفِضْ لَـهُمَا جَنَاحَ الـذُّلِّ مِنَ الرَّحْـمَةِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَـمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِىْ صَغِيْـرًا (24) اور ان کے سامنے شفقت سے عاجزی کے ساتھ جھکے رہو اور کہو اے میرے رب جس طرح انہوں نے مجھے بچپن سے پالا ہے اسی طرح تو بھی ان پر رحم فرم

يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ

يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ (Al-Baqara : 122) ‎اے بنی اسرائیل! میرے وہ احسان یاد کرو، جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تم کو اہلِ عالم پر فضیلت بخشی ‎وَاتَّقُوا يَوْمًا لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا وَلَا يُقْبَلُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلَا تَنْفَعُهَا شَفَاعَةٌ وَلَا هُمْ يُنْصَرُونَ (Al-Baqara : 123) ‎اور اس دن سے ڈرو جب کوئی شخص کسی شخص کے کچھ کام نہ آئے، اور نہ اس سے بدلہ قبول کیا جائے اور نہ اس کو کسی کی سفارش کچھ فائدہ دے اور نہ لوگوں کو (کسی اور طرح کی) مدد مل سکے ‎وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا قَالَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ (Al-Baqara : 124) ‎اور جب پروردگار نے چند باتوں میں ابراہیم کی آزمائش کی تو ان میں پورے اترے۔ خدا نے کہا کہ میں تم کو لوگوں کا پیشوا بناؤں گا۔ انہوں نے کہا کہ (پروردگار) میری اولاد میں سے بھی (پیشوا بنائیو) ۔ خدا نے فرمایا کہ ہمارا اقرار ظالموں کے لیے نہیں ہوا کرتا ‎وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ وَأَمْنًا وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى وَعَهِدْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ (Al-Baqara : 125) ‎اور جب ہم نے خانہٴ کعبہ کو لوگوں کے لیے جمع ہونے اور امن پانے کی جگہ مقرر کیا اور (حکم دیا کہ) جس مقام پر ابراہیم کھڑے ہوئے تھے، اس کو نماز کی جگہ بنا لو۔ اور ابراہیم اور اسمٰعیل کو کہا کہ طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع کرنے والوں اور سجدہ کرنے والوں کے لیے میرے گھر کو پاک صاف رکھا کرو ‎وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَذَا بَلَدًا آمِنًا وَارْزُقْ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ آمَنَ مِنْهُمْ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ قَالَ وَمَنْ كَفَرَ فَأُمَتِّعُهُ قَلِيلًا ثُمَّ أَضْطَرُّهُ إِلَى عَذَابِ النَّارِ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ (Al-Baqara : 126) ‎اور جب ابراہیم نے دعا کی کہ اے پروردگار، اس جگہ کو امن کا شہر بنا اور اس کے رہنے والوں میں سے جو خدا پر اور روزِ آخرت پر ایمان لائیں، ان کے کھانے کو میوے عطا کر، تو خدا نے فرمایا کہ جو کافر ہوگا، میں اس کو بھی کسی قدر متمتع کروں گا، (مگر) پھر اس کو (عذاب) دوزخ کے (بھگتنے کے) لیے ناچار کردوں گا، اور وہ بری جگہ ہے ‎وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَاعِيلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (Al-Baqara : 127) ‎اور جب ابراہیم اور اسمٰعیل بیت الله کی بنیادیں اونچی کر رہے تھے (تو دعا کئے جاتے تھے کہ) اے پروردگار، ہم سے یہ خدمت قبول فرما۔ بےشک تو سننے والا (اور) جاننے والا ہے ‎رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُسْلِمَةً لَكَ وَأَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ (Al-Baqara : 128) ‎اے پروردگار، ہم کو اپنا فرمانبردار بنائے رکھیو۔ اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک گروہ کو اپنا مطیع بنائے رہیو، اور (پروردگار) ہمیں طریق عبادت بتا اور ہمارے حال پر (رحم کے ساتھ) توجہ فرما۔ بے شک تو توجہ فرمانے والا مہربان ہے ‎رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (Al-Baqara : 129) ‎اے پروردگار، ان (لوگوں) میں انہیں میں سے ایک پیغمبر مبعوث کیجیو جو ان کو تیری آیتیں پڑھ پڑھ کر سنایا کرے اور کتاب اور دانائی سکھایا کرے اور ان (کے دلوں) کو پاک صاف کیا کرے۔ بےشک تو غالب اور صاحبِ حکمت ہے ‎وَمَنْ يَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ إِبْرَاهِيمَ إِلَّا مَنْ سَفِهَ نَفْسَهُ وَلَقَدِ اصْطَفَيْنَاهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ (Al-Baqara : 130) ‎اور ابراہیم کے دین سے کون رو گردانی کر سکتا ہے، بجز اس کے جو نہایت نادان ہو۔ ہم نے ان کو دنیا میں بھی منتخب کیا تھا اور آخرت میں بھی وہ (زمرہٴ) صلحا میں سے ہوں گے

جرابوں پر مسح اور اس سے متعلق دلائل

رسول اللّٰــــــہ ﷺ نے وضوء کرتے وقت اپنی جرابوں پر مسح کیا اور جوتیوں پر۔ صحيح احاديث سے ثابت ہے كہ مقيم شخص كے ليے ايك رات اور دن اور مسافر كے ليے تين راتيں اور تين دن موزوں پر مسح كرنا جائز ہے، اور جرابوں پر مسح كرنا موزوں پر مسح كرنے كى طرح ہى ہے " تم ابن ابى طالب كے پاس جا كر اس كے متعلق دريافت كرو، كيونكہ وہ نبى كريم صلى اللّٰــــــہ عليہ وسلم كے ساتھ سفر كيا كرتے تھے، چنانچہ ہم نے ان سے دريافت كيا تو انہوں نے فرمايا " رسول كريم صلى اللّٰــــــہ عليہ وسلم نے مسافر كے ليے تين راتيں اور تين دن 🏠 اور مقيم شخص كے ليے ايك رات اور دن مدت مقرر كى " صحيح مسلم حديث نمبر ( 276 ) اور امام ترمذى، ابو داود، اور ابن ماجہ نے خزيمہ بن ثابت انصارى رضى اللّٰــــــہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ: نبى كريم صلى اللّٰــــــہ عليہ وسلم سے موزوں پر مسح كے متعلق دريافت كيا گيا تو آپ صلى اللّٰــــــہ عليہ وسلم نے فرمايا " مسافر كے ليے تين 🏠اور مقيم كے ليے ايك روز " سنن ترمذى حديث نمبر ( 95 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 157 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 553 ) علامہ البانى رحمہ اللّٰہ تعالى نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے امام ترمذى، نسائى اور ابن ماجہ نے صفوان بن عسال رضى اللّٰــــــہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے: " رسول كريم صلى اللّٰــــــہ عليہ وسلم ہميں حكم ديا كرتے كہ جب ہم سفر ميں ہوں تو اپنے موزے تين رات اور تين نہ اتارا كريں، پيشاب پاخانہ اور نيند كى بنا پر نہيں بلكہ جنابت كى وجہ سے اتار ديں " سنن ترمذى حديث نمبر ( 96 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 127 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 478 ) علامہ البانى رحمہ اللّٰہ تعالى نے اس حديث كو حسن قرار ديا ہے اور شيخ الاسلام ابن تيميہ كہتے ہيں: " جب رسول كريم صلى اللّٰــــــہ عليہ وسلم نے موزوں پر مسح كرنے كا حكم مطلقا ديا ہے، حالانكہ انہيں علم تھا جو عادتا ہوتا ہے، اور آپ صلى اللّٰــــــہ عليہ وسلم نے عيوب سے سلامت ہونے كى شرط نہيں لگائى، تو ان كے حكم كو مطلقا ركھنا واجب ہے، اور كسى شرعى دليل كے بغير نبى كريم صلى اللّٰــــــہ عليہ وسلم كى كلام ميں كوئى قيد نہيں لگانى جائز نہيں. نبى كريم صلى اللّٰــــــہ عليہ وسلم كے الفاظ كا تقاضا ہے كہ لوگ جو موزے پہن كر چلتے ہيں ان ميں انہيں مسح كرنے كى اجازت ہے، چاہے وہ كھلے ہوں يا پھٹے ہوئے اس ميں كوئى مقدار كى تحديد نہيں ہو سكتى اس كے ليے دليل كى ضرورت ہے ... "

اور یہودی کہتے ہیں کہ عیسائی رستے پر نہیں اور عیسائی کہتے ہیں کہ یہودی رستے پر نہیں

وَقَالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصَارَى عَلَى شَيْءٍ وَقَالَتِ النَّصَارَى لَيْسَتِ الْيَهُودُ عَلَى شَيْءٍ وَهُمْ يَتْلُونَ الْكِتَابَ كَذَلِكَ قَالَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ مِثْلَ قَوْلِهِمْ فَاللَّهُ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ (Al-Baqara : 113) ‎اور یہودی کہتے ہیں کہ عیسائی رستے پر نہیں اور عیسائی کہتے ہیں کہ یہودی رستے پر نہیں۔ حالانکہ وہ کتاب (الہٰی) پڑھتے ہیں۔ اسی طرح بالکل انہی کی سی بات وہ لوگ کہتے ہیں جو (کچھ) نہیں جانتے (یعنی مشرک) تو جس بات میں یہ لوگ اختلاف کر رہے خدا قیامت کے دن اس کا ان میں فیصلہ کر دے گا ‎وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَسَاجِدَ اللَّهِ أَنْ يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ وَسَعَى فِي خَرَابِهَا أُولَئِكَ مَا كَانَ لَهُمْ أَنْ يَدْخُلُوهَا إِلَّا خَائِفِينَ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ (Al-Baqara : 114) ‎اور اس سے بڑھ کر ظالم کون، جو خدا کی مسجدوں میں خدا کے نام کا ذکر کئے جانے کو منع کرے اور ان کی ویرانی میں ساعی ہو۔ان لوگوں کو کچھ حق نہیں کہ ان میں داخل ہوں، مگر ڈرتے ہوئے۔ ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں بڑا عذاب ‎وَلِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ وَاسِعٌ عَلِيمٌ (Al-Baqara : 115) ‎اور مشرق اور مغرب سب خدا ہی کا ہے۔ تو جدھر تم رخ کرو۔ ادھر خدا کی ذات ہے۔ بے شک خدا صاحبِ وسعت اور باخبر ہے ‎وَقَالُوا اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا سُبْحَانَهُ بَلْ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ كُلٌّ لَهُ قَانِتُونَ (Al-Baqara : 116) ‎اور یہ لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ خدا اولاد رکھتا ہے۔ (نہیں) وہ پاک ہے، بلکہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے، سب اسی کا ہے اور سب اس کے فرماں بردار ہیں ‎بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَإِذَا قَضَى أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ (Al-Baqara : 117) ‎(وہی) آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والاہے۔ جب کوئی کام کرنا چاہتا ہے تو اس کو ارشاد فرما دیتا ہے کہ ہوجا تو وہ ہو جاتا ہے. ‎وَقَالَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ لَوْلَا يُكَلِّمُنَا اللَّهُ أَوْ تَأْتِينَا آيَةٌ كَذَلِكَ قَالَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِثْلَ قَوْلِهِمْ تَشَابَهَتْ قُلُوبُهُمْ قَدْ بَيَّنَّا الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ (Al-Baqara : 118) ‎اور جو لوگ (کچھ) نہیں جانتے (یعنی مشرک) وہ کہتے ہیں کہ خدا ہم سے کلام کیوں نہیں کرتا۔ یا ہمارے پاس کوئی نشانی کیوں نہیں آتی۔ اسی طرح جو لوگ ان سے پہلے تھے، وہ بھی انہی کی سی باتیں کیا کرتے تھے۔ ان لوگوں کے دل آپس میں ملتے جلتے ہیں۔ جو لوگ صاحبِ یقین ہیں، ان کے (سمجھانے کے) لیے نشانیاں بیان کردی ہیں ‎إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ بِالْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلَا تُسْأَلُ عَنْ أَصْحَابِ الْجَحِيمِ (Al-Baqara : 119) ‎(اے محمدﷺ) ہم نے تم کو سچائی کے ساتھ خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ اور اہل دوزخ کے بارے میں تم سے کچھ پرسش نہیں ہوگی ‎وَلَنْ تَرْضَى عَنْكَ الْيَهُودُ وَلَا النَّصَارَى حَتَّى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الْهُدَى وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُمْ بَعْدَ الَّذِي جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ (Al-Baqara : 120) ‎اور تم سے نہ تو یہودی کبھی خوش ہوں گے اور نہ عیسائی، یہاں تک کہ تم ان کے مذہب کی پیروی اختیار کرلو۔ (ان سے) کہہ دو کہ خدا کی ہدایت (یعنی دین اسلام) ہی ہدایت ہے۔ اور (اے پیغمبر) اگر تم اپنے پاس علم (یعنی وحی خدا) کے آ جانے پر بھی ان کی خواہشوں پر چلو گے تو تم کو (عذاب) خدا سے (بچانے والا) نہ کوئی دوست ہوگا اور نہ کوئی مددگار ‎الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَتْلُونَهُ حَقَّ تِلَاوَتِهِ أُولَئِكَ يُؤْمِنُونَ بِهِ وَمَنْ يَكْفُرْ بِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ (Al-Baqara : 121) ‎جن لوگوں کو ہم نے کتاب عنایت کی ہے، وہ اس کو (ایسا) پڑھتے ہیں جیسا اس کے پڑھنے کا حق ہے۔ یہی لوگ اس پر ایمان رکھنے والے ہیں، اور جو اس کو نہیں مانتے، وہ خسارہ پانے والے ہیں

فجر کی قسم اور دس راتوں کی اور جفت اور طاق کی اور رات کی جب جانے لگے

فجر کی قسم اور دس راتوں کی اور جفت اور طاق کی اور رات کی جب جانے لگے اور بے شک یہ چیزیں عقلمندوں کے نزدیک قسم کھانے کے لائق ہیں کہ (کافروں کو ضرور عذاب ہو گا) کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے پروردگار نے عاد کے ساتھ کیا کیا (جو) ارم (کہلاتے تھے اتنے) دراز قد کہ تمام ملک میں ایسے پیدا نہیں ہوئے تھے اور ثمود کے ساتھ (کیا کیا) جو وادئِ (قریٰ) میں پتھر تراشتے تھے (اور گھر بناتے) تھے اور فرعون کے ساتھ (کیا کیا) جو خیمے اور میخیں رکھتا تھا یہ لوگ ملکوں میں سرکش ہو رہے تھے اور ان میں بہت سی خرابیاں کرتے تھے تو تمہارے پروردگار نے ان پر عذاب کا کوڑا نازل کیا بے شک تمہارا پروردگار تاک میں ہے مگر انسان (عجیب مخلوق ہے کہ) جب اس کا پروردگار اس کو آزماتا ہے تو اسے عزت دیتا اور نعمت بخشتا ہے۔ تو کہتا ہے کہ (آہا) میرے پروردگار نے مجھے عزت بخشی اور جب (دوسری طرح) آزماتا ہے کہ اس پر روزی تنگ کر دیتا ہے تو کہتا ہے کہ (ہائے) میرے پروردگار نے مجھے ذلیل کیا نہیں بلکہ تم لوگ یتیم کی خاطر نہیں کرتے اور نہ مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب دیتے ہو اور میراث کے مال سمیٹ کر کھا جاتے ہو اور مال کو بہت ہی عزیز رکھتے ہو تو جب زمین کی بلندی کوٹ کوٹ کو پست کر دی جائے گی اور تمہارا پروردگار (جلوہ فرما ہو گا) اور فرشتے قطار باندھ باندھ کر آ موجود ہوں گے اور دوزخ اس دن حاضر کی جائے گی تو انسان اس دن متنبہ ہو گا مگر تنبہ (سے) اسے (فائدہ) کہاں (مل سکے گا) کہے گا کاش میں نے اپنی زندگی (جاودانی کے لیے) کچھ آگے بھیجا ہوتا تو اس دن نہ کوئی خدا کے عذاب کی طرح کا (کسی کو) عذاب دے گا اور نہ کوئی ویسا جکڑنا جکڑے گا اے اطمینان پانے والی روح اپنے پروردگار کی طرف لوٹ چل۔ تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی تو میرے (ممتاز) بندوں میں شامل ہو جا اور میری بہشت میں داخل ہو جا

اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا

يٰۤـاَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّكُمُ الَّذِىۡ خَلَقَكُمۡ مِّنۡ نَّفۡسٍ وَّاحِدَةٍ وَّخَلَقَ مِنۡهَا زَوۡجَهَا وَبَثَّ مِنۡهُمَا رِجَالًا كَثِيۡرًا وَّنِسَآءً‌ ۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِىۡ تَسَآءَلُوۡنَ بِهٖ وَالۡاَرۡحَامَ‌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلَيۡكُمۡ رَقِيۡبًا ۞ (النّساء:۱) اے لوگو ! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس سے اس کی بیوی پیدا کی اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیں اور اللہ سے ڈرو جس کے واسطے سے تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور رشتوں سے بھی، بیشک اللہ ہمیشہ تم پر پورا نگہبان ہے۔

By the dawn and the ten nights and the even and the odd and by the night when it departs Surah Al-Fajr 89:1-30

By the dawn,and the ten nights,and the even and the odd,and by the night when it departs,Is there in this an oath for one endowed with understanding?Have you2 not seen how your Lord dealt with Ad,of Iram,known for their lofty columns,the like of whom no nation was ever created in the lands of the world?And how did He deal with Thamud who hewed out rocks in the valley?And with Pharaoh of the tent pegs,who transgressed in the countries of the world,spreading in them much corruption?Then their Lord unloosed upon them the lash of chastisement.Truly your Lord is ever watchful.As for man,when his Lord tests him by exalting him and bestowing His bounties upon him, he says:My Lord has exalted me.But when He tests him by straitening his sustenance, he says:My Lord has humiliated me.But no;you do not treat the orphan honourably,and do not urge one another to feed the poor,and greedily devour the entire inheritance,and love the riches, loving them ardently.But no;when the earth is ground to powder,and when your Lord appears with rows upon rows of angels,and when Hell is brought near that Day. On that Day will man understand, but of what avail will that understanding be?and love the riches, loving them ardently.But no; when the earth is ground to powder,and when your Lord appears with rows upon rows of angels,and when Hell is brought near that Day. On that Day will man understand, but of what avail will that understanding be?He will say:Would that I had sent ahead what would be of avail for this life of mine!Then on that Day Allah will chastise as none other can chastise;and Allah will bind as none other can bind.On the other hand it will be said :O serene soul!Return to your Lord well-pleased with your blissful destination, well-pleasing to your Lord.So enter among My righteous servants,and enter My Paradise.Surah Al-Fajr 89:1-30

اے اہل ایمان گفتگو کے وقت پیغمبرِ خدا سے راعنا نہ کہا کرو۔ انظرنا کہا کرو

ا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقُولُوا رَاعِنَا وَقُولُوا انْظُرْنَا وَاسْمَعُوا وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌ (Al-Baqara : 104) ‎اے اہل ایمان! (گفتگو کے وقت پیغمبرِ خدا سے) راعنا نہ کہا کرو۔ انظرنا کہا کرو۔ اور خوب سن رکھو، اور کافروں کے لیے دکھ دینے والا عذاب ہے ‎مَا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَلَا الْمُشْرِكِينَ أَنْ يُنَزَّلَ عَلَيْكُمْ مِنْ خَيْرٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَاللَّهُ يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ (Al-Baqara : 105) ‎جو لوگ کافر ہیں، اہل کتاب یا مشرک وہ اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ تم پر تمہارے پروردگار کی طرف سے خیر (وبرکت) نازل ہو۔ اور خدا تو جس کو چاہتا ہے، اپنی رحمت کے ساتھ خاص کر لیتا ہے اور خدا بڑے فضل کا مالک ہے ‎مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (Al-Baqara : 106) ‎ہم جس آیت کو منسوخ کر دیتے یا اسے فراموش کرا دیتے ہیں تو اس سے بہتر یا ویسی ہی اور آیت بھیج دیتے ہیں۔ کیا تم نہیں جانتے کہ خدا ہر بات پر قادر ہے ‎أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ (Al-Baqara : 107) ‎تمہیں معلوم نہیں کہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہت خدا ہی کی ہے، اور خدا کے سوا تمہارا کوئی دوست اور مدد گار نہیں ‎أَمْ تُرِيدُونَ أَنْ تَسْأَلُوا رَسُولَكُمْ كَمَا سُئِلَ مُوسَى مِنْ قَبْلُ وَمَنْ يَتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْإِيمَانِ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ (Al-Baqara : 108) ‎کیا تم یہ چاہتے ہو کہ اپنے پیغمبر سے اسی طرح کے سوال کرو، جس طرح کے سوال پہلے موسیٰ سے کئے گئے تھے۔ اور جس شخص نے ایمان (چھوڑ کر اس) کے بدلے کفر لیا، وہ سیدھے رستے سے بھٹک گیا ‎وَدَّ كَثِيرٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَوْ يَرُدُّونَكُمْ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِكُمْ كُفَّارًا حَسَدًا مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِهِمْ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ فَاعْفُوا وَاصْفَحُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (Al-Baqara : 109) ‎بہت سے اہل کتاب اپنے دل کی جلن سے یہ چاہتے ہیں کہ ایمان لا چکنے کے بعد تم کو پھر کافر بنا دیں۔ حالانکہ ان پر حق ظاہر ہو چکا ہے۔ تو تم معاف کردو اور درگزر کرو۔ یہاں تک کہ خدا اپنا (دوسرا) حکم بھیجے۔ بے شک خدا ہر بات پر قادر ہے ‎وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَمَا تُقَدِّمُوا لِأَنْفُسِكُمْ مِنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِنْدَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (Al-Baqara : 110) ‎اور نماز ادا کرتے رہو اور زکوٰة دیتے رہو۔ اور جو بھلائی اپنے لیے آگے بھیج رکھو گے، اس کو خدا کے ہاں پا لو گے۔ کچھ شک نہیں کہ خدا تمہارے سب کاموں کو دیکھ رہا ہے ‎وَقَالُوا لَنْ يَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَنْ كَانَ هُودًا أَوْ نَصَارَى تِلْكَ أَمَانِيُّهُمْ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (Al-Baqara : 111) ‎اور (یہودی اور عیسائی) کہتے ہیں کہ یہودیوں اور عیسائیوں کے سوا کوئی بہشت میں نہیں جانے کا۔ یہ ان لوگوں کے خیالاتِ باطل ہیں۔ (اے پیغمبر ان سے) کہہ دو کہ اگر سچے ہو تو دلیل پیش کرو ‎بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَهُ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (Al-Baqara : 112) ‎ہاں جو شخص خدا کے آگے گردن جھکا دے، (یعنی ایمان لے آئے) اور وہ نیکو کار بھی ہو تو اس کا صلہ اس کے پروردگار کے پاس ہے اور ایسے لوگوں کو (قیامت کے دن) نہ کسی طرح کا خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے

پانچ بہت ہی برے جانور ہیں، جن کو حرم میں بھی مار ڈالنا درست ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا مَالِكٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ خَمْسٌ مِنَ الدَّوَابِّ مَنْ قَتَلَهُنَّ وَهُوَ مُحْرِمٌ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ الْعَقْرَبُ، ‏‏‏‏‏‏وَالْفَأْرَةُ، ‏‏‏‏‏‏وَالْكَلْبُ الْعَقُورُ، ‏‏‏‏‏‏وَالْغُرَابُ، ‏‏‏‏‏‏وَالْحِدَأَةُ. ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں عبداللہ بن دینار نے اور انہیں عبداللہ بن عمر ؓ نے کہ : نبی کریم ﷺ نے فرمایا پانچ جانور ایسے ہیں جنہیں اگر کوئی شخص حالت احرام میں بھی مار ڈالے تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔ بچھو، چوہا، کاٹ لینے والا کتا، کوا اور چیل۔ Narrated Abdullah bin Umar (RA): Allahs Apostle ﷺ said, "It is not sinful of a person in the state of Ihram to kill any of these five animals: The scorpion, the rat, the rabid dog, the crow and the kite."

وَٱلْفَجْرِ وَلَيَالٍ عَشْرٍۢ وَٱلشَّفْعِ وَٱلْوَتْرِ وَٱلَّيْلِ إِذَا يَسْرِ وَٱلَّيْلِ إِذَا يَسْرِ

وَٱلْفَجْرِ ١ وَلَيَالٍ عَشْرٍۢ ٢ وَٱلشَّفْعِ وَٱلْوَتْرِ ٣ وَٱلَّيْلِ إِذَا يَسْرِ ٤ هَلْ فِى ذَٰلِكَ قَسَمٌۭ لِّذِى حِجْرٍ ٥ أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِعَادٍ ٦ إِرَمَ ذَاتِ ٱلْعِمَادِ ٧ ٱلَّتِى لَمْ يُخْلَقْ مِثْلُهَا فِى ٱلْبِلَـٰدِ ٨ وَثَمُودَ ٱلَّذِينَ جَابُوا۟ ٱلصَّخْرَ بِٱلْوَادِ ٩ وَفِرْعَوْنَ ذِى ٱلْأَوْتَادِ ١٠ ٱلَّذِينَ طَغَوْا۟ فِى ٱلْبِلَـٰدِ ١١ فَأَكْثَرُوا۟ فِيهَا ٱلْفَسَادَ ١٢ فَصَبَّ عَلَيْهِمْ رَبُّكَ سَوْطَ عَذَابٍ ١٣ إِنَّ رَبَّكَ لَبِٱلْمِرْصَادِ ١٤ فَأَمَّا ٱلْإِنسَـٰنُ إِذَا مَا ٱبْتَلَىٰهُ رَبُّهُۥ فَأَكْرَمَهُۥ وَنَعَّمَهُۥ فَيَقُولُ رَبِّىٓ أَكْرَمَنِ ١٥ وَأَمَّآ إِذَا مَا ٱبْتَلَىٰهُ فَقَدَرَ عَلَيْهِ رِزْقَهُۥ فَيَقُولُ رَبِّىٓ أَهَـٰنَنِ ١٦ كَلَّا ۖ بَل لَّا تُكْرِمُونَ ٱلْيَتِيمَ ١٧ وَلَا تَحَـٰٓضُّونَ عَلَىٰ طَعَامِ ٱلْمِسْكِينِ ١٨ وَتَأْكُلُونَ ٱلتُّرَاثَ أَكْلًۭا لَّمًّۭا ١٩ وَتُحِبُّونَ ٱلْمَالَ حُبًّۭا جَمًّۭا ٢٠ كَلَّآ إِذَا دُكَّتِ ٱلْأَرْضُ دَكًّۭا دَكًّۭا ٢١ وَجَآءَ رَبُّكَ وَٱلْمَلَكُ صَفًّۭا صَفًّۭا ٢٢ وَجِا۟ىٓءَ يَوْمَئِذٍۭ بِجَهَنَّمَ ۚ يَوْمَئِذٍۢ يَتَذَكَّرُ ٱلْإِنسَـٰنُ وَأَنَّىٰ لَهُ ٱلذِّكْرَىٰ ٢٣ يَقُولُ يَـٰلَيْتَنِى قَدَّمْتُ لِحَيَاتِى ٢٤ فَيَوْمَئِذٍۢ لَّا يُعَذِّبُ عَذَابَهُۥٓ أَحَدٌۭ ٢٥ وَلَا يُوثِقُ وَثَاقَهُۥٓ أَحَدٌۭ ٢٦ يَـٰٓأَيَّتُهَا ٱلنَّفْسُ ٱلْمُطْمَئِنَّةُ ٢٧ ٱرْجِعِىٓ إِلَىٰ رَبِّكِ رَاضِيَةًۭ مَّرْضِيَّةًۭ ٢٨ فَٱدْخُلِى فِى عِبَـٰدِى ٢٩ وَٱدْخُلِى جَنَّتِى ٣٠

ایک نامحرم کبھی دوست نہیں ہوتا وہ قبر کا سانپ ہوتا ہے یا جہنم کا انگارہ

دوستی ایک بہت پیارا انمول رشتہ ہے لیکن نامحرم سے دوستی نفس، ملمع کی ہوئی باتوں اور خواہشات کا دھوکہ ہے اور قطعاً حرام فعل ہے۔ اسلام میں عورت اور مرد کے درمیان دوستی نام کا کوئی رشتہ نہیں۔ نامحرم سے دُوستی شیطان سے دوستی کے مترادف ہے اور شیطان سے دوستی انسان کو جنت سے دور اور جہنم سے قریب کرتی ہے۔ الله تعالیٰ نے عورتوں کو تاکید کی ہے کہ غیر محرم سے کلام کرتے ہوئے لہجہ نرم نہ رکھیں کیونکہ جب عورت نرمی یا لچک دکھاتی ہے تو یہ بہت سی خرابیوں کا باعث بنتا ہے۔ غیر محرم کبھی آپ کی حفاظت نہیں کر سکتا وہ کبھی آپ کا مخلص نہیں ہو سکتا۔ غیر محرم غیر محرم ہی ہے چاہے معاملہ دینداری کا ہو یا دنیا داری کا۔` علامہ آلوسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: نامحرم مردوں کے ساتھ سخت لہجے میں بات کرنا عورت کی بہترین صفات میں شمار کیا گیا ہے، زمانہ جاہلیت میں بھی اور اسلام میں بھی! 📖 روح المعاني : ١٨٧/١١ ، الله رب العزت نے سورہ نساء میں مومن عورتوں کی ایک صفت یہ بھی بتائی کہ وہ چھپے دوست نہیں بناتی تو چھپی دوستی سے مراد نامحرم کی دوستی ہے۔ آپ غور کریں جب الله پاک آپ کو اس طرح غیر محرم کی دوستی سے منع کر رہا ہے تو بیشک اس میں فائدہ ہی ہے۔ غیر محرم اگر اتنا مخلص ہوتا تو الله کبھی اس سے پردے کا حکم نہ دیتا اور عورت کو اتنے سخت لہجے کی تاکید نہ کرتا۔ غیر محرم جتنا بھی دیندار یا اعلی اخلاق ہو اُس کے لئے دل کے دروازے کھولنا ذلت اور رسوائی کا سبب بن سکتا ہے۔ محبت نکاح سے پہلے چاہے زم زم سے دھلی ہو یا قرآنی آیت سے دم کی گئی ہو.... گمراہی ہے، فریب ہے، دھوکہ ہے، حرام ہے۔ ایک لڑکی کے لئے معاشرے میں بدترین پہچان کسی نامحرم کی دوست (گرل فرینڈ) ہونا ہے۔ غیر محرم سے دوستی ایک ایسا فعل ہے۔ جس کا ارتکاب کرنے والا اپنی عزت کھو بیٹھتا ہے۔ غیر محرم سے تعلقات انسان کو اس دنیا میں بھی ذلیل کرتے ہیں اور آخرت میں بھی جب تمام مخفی اعمال سامنے لائے جائیں گے تو ایسی رسوائی ہوگی کہ کسی سے نظریں نہ ملا سکیں گے پھر تو پہاڑوں کے برابر کی گئی نیکیاں بھی ان پوشیدہ گناہوں کے سبب راکھ بن جائیں گی۔ یہ بات بہت حیران کن ہے کہ لال بیگ اور چھپکلی سے ڈرنے والی حساس لڑکیاں آخر ایک غیر محرم مرد سے کیوں اکیلے ملنے سے نہیں ڈرتی؟ حالانکہ چھپکلی اور لال بیگ نقصان نہیں پہنچاتے لیکن ایک غیر محرم آپ کی روح، آپ کے جسم، آپ کی پاکدامنی، آپ کی عزت، آپ کا حسب نسب، آپ کے والدین کا آپ پر اعتبار اور حتی کہ آپ کی آخرت بھی برباد کر سکتا ہے۔ یاد رکھئے گا کہ دوستی کا رشتہ گناہ نہیں ہے لیکن الله کی حدود کو پھلانگ کر غیر محرم سے دوستی گناہ ہے تو اس گناہ سے بچ جائیں

وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ ٱفْتَرَىٰ عَلَى ٱللَّهِ كَذِبًا أَوْ قَالَ أُوحِىَ إِلَىَّ وَلَمْ يُوحَ إِلَيْهِ شَىْءٌۭ

وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ ٱفْتَرَىٰ عَلَى ٱللَّهِ كَذِبًا أَوْ قَالَ أُوحِىَ إِلَىَّ وَلَمْ يُوحَ إِلَيْهِ شَىْءٌۭ وَمَن قَالَ سَأُنزِلُ مِثْلَ مَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ ۗ وَلَوْ تَرَىٰٓ إِذِ ٱلظَّـٰلِمُونَ فِى غَمَرَٰتِ ٱلْمَوْتِ وَٱلْمَلَـٰٓئِكَةُ بَاسِطُوٓا۟ أَيْدِيهِمْ أَخْرِجُوٓا۟ أَنفُسَكُمُ ۖ ٱلْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ ٱلْهُونِ بِمَا كُنتُمْ تَقُولُونَ عَلَى ٱللَّهِ غَيْرَ ٱلْحَقِّ وَكُنتُمْ عَنْ ءَايَـٰتِهِۦ تَسْتَكْبِرُونَ ٩٣ اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جس نے کوئی بات گھڑ کر اللہ سے منسوب کردی یا (اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا) جو یہ کہے کہ مجھ پر وحی کی گئی ہے جب کہ اس پر کچھ بھی وحی نہ کی گئی ہو اور جو کہے کہ میں بھی اتار سکتا ہوں جیسا کلام اللہ نے اتارا ہے اور کاش تم دیکھ سکتے جبکہ یہ ظالم موت کی سختیوں میں ہوں گے اور فرشتے اپنے ہاتھ آگے بڑھا رہے ہوں گے (اور کہہ رہے ہوں گے) کہ نکالو اپنی جانیں آج تمہیں ذلت کا عذاب دیا جائے گا بسبب اس کے جو تم کہتے رہے تھے اللہ کی طرف منسوب کر کے ناحق باتیں اور جو تم اللہ کی آیات سے متکبرانہ اعراض کرتے رہے تھے

اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلَھَا وَ ارْحَمْھَا وَ عَافِھَا وَ اعْفُ عَنْھَا وَ اَکْرِمْ نُزُلَھَا

اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلَھَا وَ ارْحَمْھَا وَ عَافِھَا وَ اعْفُ عَنْھَا وَ اَکْرِمْ نُزُلَھَا وَ وَسِّعْ مُدْخَلَھَا وَ اغْسِلْھَا بِالْمَاءِ وَ الثَّلْجِ وَ الْبَرَدِ وَ نَقِّھَا مِنَ الْخَطَایَا کَمَا نَقَّیْتَ الثَّوْبَ الْاَبْیَضَ مِنَ الدَّنَسِ وَ اَبْدِلْھَا دَارًا خَیْرًا مِنْ دَارِھَا وَ اَھْلًا خَیْرًا مِنْ اَھْلِھَا وَ زَوْجًا خَیْرًا مِنْ زَوْجِھَا وَ اَدْخِلْھَا الْجَنَّةَ وَ اَعِذْھَا مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَ مِنْ عَذَابِ النَّارِ۔ اے الله! اس کی بخشش فرما اور اس پر رحم فرما اور اس سے درگزر کرکے اسے معاف فرمادے اور اس کی اچھی مہمانی کر اور اس کے داخل ہونے کی جگه کشاده کردے اور اسے پانی، برف اور اولوں سے دھو ڈال اور اسے خطاؤں سے اس طرح صاف کر دے جیسے تو سفید کپڑا میل کچیل سے صاف کردیتا ہے اور اسے اس کے اس گھر سے بہتر گھر اور اس کے گھر والوں سے بہتر گھر والے اور اس کے ساتھی سے بہتر ساتھی عطا فرما اور اسے جنت میں داخل فرما اور اسے عذاب قبر اور آگ کے عذاب سے بچا لے۔

سورہ کہف اور چار فتنے

دنیا میں اس وقت جتنی خرابیاں نظر آرہی ہیں اور جتنا فساد پھیلا ہوا ہے اس کا سبب یا تو دین ہے کہ دین حق کے پیروکاروں کو باطل کی طرف سے تکلیفوں کا سامنا ہے، یا مال و دولت کی ہوس ہے کہ زیادہ سے زیادہ مال کمانے کے چکر میں دوسروں کے حقوق پامال کیے جارہے ہیں، یا نئے علوم اور اس سے حاصل ہونے والی ٹیکنالوجی کا غلط استعمال ہے یا پھر دنیا پر قبضہ کرنے کی جنگ ہے جس میں طاقتوروں کی لڑائی میں کمزور مارے جارہے ہیں۔ تو گویا دین، مال، علم اور اقتدار یہ وہ چار فتنے ہیں جن کی وجہ سے آج دنیا پریشان ہیں۔ سورۃ کہف میں ذکر کیے گئے چار واقعات میں انہی چار فتنوں کی طرف اشارہ ہے اور ہر واقعے کے بعد ان فتنوں سے نمٹنے کا طریقہ بھی بتایا گیا ہے۔ اصحاب کہف کے واقعہ میں دین کے فتنے کا تذکرہ ہے، باغوں والے واقعے میں مال کے فتنے کا تذکرہ ہے، موسیٰ علیہ السلام و خضر علیہ السلام کے واقعے میں علم کے فتنے کا ذکر ہ اور ذوالقرنین کے واقعے میں اقتدار کے فتنے کا ذکر ہے۔ یہی چار بڑے فتنے ہیں جس کا سامنا اکثر و بیشتر زندگی میں کرنا پڑتا ہے۔ دین کا فتنہ: چند نوجوانوں نے اپنا دین بچانے کے لیے ظالم و جابر بادشاہ کی چنگل سے فرار ہو کر ایک غار کا رخ کیا جہاں خدا نے ان کو 309 سال تک سلائے رکھا جب ان کو جاگ آئی تو پوری کی پوری بستی ایمان لا چکی تھی۔ اس واقعے کے ذکر کے بعد چند آیات ہیں جس میں یہ بتلایا گیا ہے کہ نیک لوگوں کی صحبت اور آخرت کی زندگی کے بارے میں متفکر رہنے سے ہی دین کے فتنے سے بچا جاسکتا ہے۔ مال کا فتنہ: وہ شخص جس کو خدا نے دو باغ عطا کیے تھے مگر اس نے خدا کی نعمتوں کی ناشکری کی اور بعث بعد الموت کا انکار کیا جس کی پاداش میں خدا نے اس کے دونوں باغات کو تباہ و برباد کردیا اور دنیا میں ہی اسے ناشکری کی سزا دی۔ اس واقعے کے ذکر کے بعد چند آیات کا ذکر ہیں جس میں بتلایا گیا ہے کہ مال کے فتنے سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ دنیا کی حقیقت کو جان لیا جائے اور آخرت کو یاد کرلیا جائے۔ علم کا فتنہ: موسیٰ علیہ السلام کا گمان یہ تھا کہ روئے زمین پر سب سے زیادہ علم ان کے پاس ہے چنانچہ اللہ تعالٰی نے ان کو وحی کے ذریعے بتلایا کہ زمین پر ایک شخص ایسا بھی موجود ہے جس کا علم ان سے زیادہ ہے۔ موسیٰ علیہ السلام ان سے ملاقات کے لیے نکل پڑے اور علم حاصل کرنے کے شوق کا اظہار کیا لیکن وہ خضر علیہ السلام کے افعال پر صبر نہ کرسکے کیونکہ انہیں ان افعال کی حکمتوں کا علم نہیں تھا۔ اس فتنے سے بچاؤ کا طریقہ یہ ہے بندہ تواضع اختیار کرے اور اپنے علم پر اس کو غرور و تکبر نہ ہو اور ہمیشہ اپنے آپ کو کم علم ہی سمجھے۔ اقتدار کا فتنہ: ذو القرنين علیہ السلام ایک عادل بادشاہ تھے جو اکثر و بیشتر خدا کے دین کو پھیلانے کی غرض سے سفر کیا کرتے تھے ایک مرتبہ وہ ایسی قوم کے پاس پہنچے جو یاجوج ماجوج کے حملوں سے خوفزدہ تھی اور یاجوج ماجوج طاقت کے گھمنڈ میں ان کو تنگ کیا کرتے۔ ۔ چنانچہ ذوالقرنین علیہ السلام نے ان کی مدد کرتے ہوئے ایک بڑی دیوار بنائی جو کہ آج تک قائم ہے۔ طاقت کے اس فتنے سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ انسان اپنے عمل میں اخلاص پیدا کرے تاکہ طاقت اس کو گھمنڈ میں مبتلا نہ کریں اور آخرت کو بدستور یاد رکھے کیونکہ وہاں سب سے بڑے طاقتور کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سورۃ کہف کے آخر میں اس بات کا ذکر ہے کہ آخرت کی یاد سے ہی انسان تمام فتنوں سے بچ سکتا ہے اور سورۃ کہف میں جو الفاظ وارد ہوئے ہیں ان سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ فتنوں سے بچنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ انسان متحرک رہے، ارد گرد کے ماحول کے بارے میں محتاط رہے، زمانے کے نت نئے فتنوں سے آگاہ رہے۔ایک اور بات یہ بھی مفسرین نے ذکر کی ہے اس سورت کی ابتداء بھی قرآن کے ذکر سے ہوئی ہے اور انتہا بھی جس کا مطلب یہ ہے کہ فتنوں سے بچنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ قرآن کے ساتھ تعلق بنا رہے۔ اللّٰه تعالی ہمیں تمام فتنوں اور آزمائشوں سے محفوظ رکھے، اور ابدی سفر میں کامیابی عطا فرمائے آمین! کے سوا کوئی معبود نہیں،وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں،اسی کے لیے بادشاہت ہے اور اسی کے لیے سب تعریف ہے اور وہ ہر چیز پرپوری قدرت رکھنے والا ہے

وَالْحَمْدُ للهِ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِیْكَ لَهُ

أَمْسَیْنَا وَأَمْسَی الْمُلْكُ للهِ وَالْحَمْدُ للهِ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِیْكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلٰی كُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ، رَبِّ أَسْئَلُكَ خَیْرَمَا فِیْ ھٰذِهِ اللَّیْلَةِ وَخَیْرَمَا بَعْدَھَا وَأَعُوْذُبِكَ مِنْ شَرِّمَا فِیْ ھٰذِهِ اللَّیْلَةِ وَشَرِّ مَا بَعْدَھَا، رَبِّ أَعُوْذُبِكَ مِنَ الْكَسَلِ وَسُوْءِ الْكِبَرِ، رَبِّ أَعُوْذُبِكَ مِنْ عَذَابٍ فِی النَّارِ وَعَذَابٍ فِی الْقَبْرِ ہم نے اور تمام عالم نے الله کے لیے شام کی اور تمام تعریف الله کے لیے ہے، الله کے سواکوئی معبود نہیں ، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کے لیے بادشاہت ہے اور اسی کے لیے تمام تعریف ہے اور وہ ہر چیز پرپوری طرح قادر ہے، اے میرے رب! میں تجھ سے اس رات کی بھلائی اور جو اس کے بعد ہے اس کی بھلائی مانگتا ہوں اور میں تیری پناہ لیتاہوںاس رات کے شر اور جو اس کے بعد ہے اس کے شر سے، اے میرے رب! میں تیری پناہ لیتاہوں سستی اور بدترین بڑھاپے سے، اے میرے رب! میں تیری پناہ لیتاہوں آگ کے عذاب سے اور قبر کے عذاب سے.

اَللّٰھُمَّ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ

اَللّٰھُمَّ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ، عَالِمَ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَةِ، لَا اِلٰهَ اِلاَّ أَنْتَ رَبَّ كُلِّ شَیْئٍ وَمَلِیْكَهُ أَعُوْذُ بِكَ مِنْ شَرِّ نَفْسِیْ وَمِنْ شَرِّالشَّیْطَانِ وَشِرْكِهِ وأَنْ اَقْتَرِفَ عَلٰی نَفْسِیْ سُوْئً ا أَوْ أَجُرَّهُ اِلٰی مُسْلِمٍ اے الله! آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے ، چھپے اور کھلے کے جاننے والے ، تیرے سوا کوئی معبود نہیں، توہر چیز کا رب اور اس کا مالک ہے ، میں تیری پناہ لیتا ہوںاپنے نفس کے شر سے اور شیطان کے شر سے اور اس کے شرک کے شرسے اوریہ کہ میں اپنی جان کو کسی برائی میں ملوث کروں یا کسی دوسرے مسلمان کو اس کی طرف مائل کروں

اے الله بے شک میں تجھ سے دنیا اور آخرت میں عافیت مانگتا ہوں

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ أَسْاَلُكَ الْعَافِیَةَ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ، اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ أَسْاَلُكَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَةَ فِیْ دِیْنِیْ وَدُنْیَایَ وَأَھْلِیْ وَمَالِیْ، اَللّٰھُمَّ اسْتُرْ عَوْرَاتِیْ وَ آمِنْ رَوْعَاتِیْ اَللّٰھُمَّ احْفَظْنِیْ مِنْ بَیْنِ یَدَیَّ وَمِنْ خَلْفِیْ وَعَنْ یَمِیْنِیْ وَعَنْ شِمَالِیْ وَمِنْ فَوْقِیْ وَأَعُوْذُ بِعَظَمَتِكَ أَنْ اُغْتَالَ مِنْ تَحْتِیْ اے الله! بے شک میں تجھ سے دنیا اور آخرت میں عافیت مانگتا ہوں، اے الله! بے شک میں تجھ سے درگزر کا اورعافیت کا سوال کرتا ہوں اپنے دین میں، اپنی دنیا میں ،اپنے اہل میں اور اپنے مال میں، اے الله!میرے عیب ڈھانپ دے اور مجھے خوف سے امن دے۔ اے الله! میری حفاظت کر، میرے سامنے سے اور میرے پیچھے سے اور میرے دائیں سے اور میرے بائیں سے اور میرے اوپر سے اور میں پناہ چاہتا ہوں تیری عظمت کے ذریعے اس سے کہ میں اپنے نیچے سے ہلاک کیا جائوں

الله وہ ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں

اللهُ لآَ اِلٰهَ اِلاَّ هُوَ اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ لاَ تَاْخُذُهُ سِنَةً وَّلَا نَوْمٌ لَهُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَهُ اِلاَّ بِاِذْنِهِ یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْئٍ مِّنْ عِلْمِهِ اِلاَّ بِمَا شَآ َٕ وَسِعَ كُرْسِیُّهُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَلاَ یَوُدُهُ حِفْظُهُمَا وَهُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ ) الله (وہ ہے کہ )اس کے سوا کوئی معبود نہیں، زندہ ہے، ہر چیز کو قائم رکھنے والا ہے، نہ اسے اونگھ پکڑتی ہے اور نہ نیند، اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے، کون ہے جو اس کے پاس اس کی اجازت کے بغیر سفارش کرے، وہ جانتا ہے جو کچھ ان کے سامنے اور جو ان کے پیچھے ہے اور وہ اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کرتے مگر جتنا وہ چاہے۔ اس کی کرسی آسمانوں اور زمین کو سمائے ہوئے ہے اور اسے ان دونوں کی حفاظت نہیں تھکاتی اور وہی سب سے بلند، سب سے بڑا ہے

اے الله میرے کانوں میں مجھے عافیت دے

اَللّٰھُمَّ عَافِنِیْ فِیْ بَدَنِیْ، اَللّٰھُمَّ عَافِنِیْ فِیْ سَمْعِیْ، اَللّٰھُمَّ عَافِنِیْ فِیْ بَصَرِیْ لَا اِلٰهَ اِلَّا أَنْتَ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِكَ مِنَ الْكُفْرِ وَالْفَقْرِ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ،لَا اِلٰهَ اِلاَّ اَنْتَ اے الله! میرے بدن میں مجھے عافیت دے ،اے الله! میرے کانوں میں مجھے عافیت دے، اے الله! میری آنکھوں میں مجھے عافیت دے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ اے الله!یقینا میں تیری پناہ لیتا ہوں کفر اورفقر وفاقہ سے ،اے الله !بے شک میں تیری پناہ لیتا ہوں عذابِ قبر سے،تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے

دعا كى طاقت یا الہٰی! ہمیں اپنا گھر عطا کر جس کے آگے ایک نہر ہو

یہ سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض شہر کا واقعہ ہے۔ ایک نیک خاتون رمضان المبارک میں ہر روز افطار سے پہلے تمام بچوں کو اکٹھا کرتی اور ان سے کہتی کہ جو کچھ میں کہوں اور کروں، تم بھی وہی کہنا اور کرنا، پھر وہ دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتی اور کہتیں "یا الہٰی! ہمیں اپنا گھر عطا کر جس کے آگے ایک نہر ہو." تمام بچے بھی ہاتھ اٹھاتے اور کہتے: "یا الہٰی! ہمیں اپنا گھر عطا کر جس کے آگے ایک نہر ہو...!" اس خاتون کا شوہر ہنستا اور کہتا، "اپنے گھر کی بات تو سمجھ آتی ہے، لیکن یہ گھر کے آگے نہر ہونے کا کیا مطلب؟ اس صحرائی علاقے میں نہر کہاں سے آئے گی؟" بیوی اسے جواباً کہتی: " آپ کو اس سے کیا غرض، یہ ہمارا اور اللّه تعالٰی کا معاملہ ہے، آپ بیچ میں مت آئیے، وہ رب تو کہتا ہے، مجھ سے جو مانگو، میں عطا کروں گا، ہم تو جو جی میں آئے گا، مانگیں گے، اور بار بار مانگیں گے..." غرض وہ اسی طرح بچوں کو اکھٹا کرتی اور خود بھی دعا کرتی اور بچوں سے بھی کرواتی۔ رمضان المبارک بیت گیا۔ ایک دن اس کے شوہر نے کہا: "اب بتاؤ، کہاں ہے تمہارا اپنا گھر، اور کہاں ہے وہ نہر...؟" خاتون نے بڑے یقین سے جواب دیا، " الله تعالیٰ ہمیں ہمارا گھر ضرور دے گا، وہ ہماری تمام مرادیں پوری کرے گا۔" اس سے اگلا واقعہ وہ خود بیان کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ، "میں شوال کے چھ روزے رکھ کر فارغ ہوئی تھی کہ ایک روز بڑا عجیب واقعہ پیش آیا. میرے شوہر عصر کی نماز پڑھ کر مسجد سے نکل رہے تھے کہ ریاض کے ایک امیر آدمی نے ان کا راستہ روکا، میرے شوہر انھیں جانتے تک نہ تھے اس آدمی نے انہیں سلام کیا اور کہا: "میرے پاس ایک گھر ہے، آدھے گھر میں تو میں اپنے والد کے ساتھ رہتا ہوں، مگر گھر کا دوسرا نصف حصہ خالی پڑا ہے۔ اللّه تعالیٰ نے مجھے اور میری اولاد کو اپنے فضل و کرم سے بہت نوازا ہے، ہمیں اس آدھے گھر کی ضرورت نہیں۔ آج اس ارادے سے گھر سے نکلا تھا کہ نماز عصر کے بعد مسجد سے نکلنے والے پہلے آدمی کو میں وہ آدھا گھر ہدیۃً دے دوں گا، یوں آپ سے ملاقات ہوئی تو گزارش ہے کہ میرا آدھا گھر ھدیتہً قبول فرما لیں...!!" بلا قیمت مکان لیتے ہوئے ہمیں تردد ہوا، وہ صاحب کہنے لگے " اگر آپ کی تسلی قیمت دئیے بغیر نہیں ہوتی تو جتنی رقم آپ آسانی سے دے سکتے ہیں، دے دیجئے.!!" خیر ہم نے کچھ اپنے پاس اور کچھ اِدھر اُدھر سے جو رقم اکٹھی کی وہ کم و بیش 8 ہزار ریال بن گئے، وہ رقم ہم نے اس آدمی کے حوالے کر دی، اب ہم اس آدھے مکان کے مالک بن گئے تھے۔ مکان ریاض شہر کے ایک ماڈرن علاقے میں واقع تھا، سچ ہے کہ جو انسان سچے دل سے اللّه تعالٰی کو پکارتا ہے، اللّه تعالٰی بھی اس کی پُکار ضرور سنتا ہے۔ لیکن! ایک بات نے مجھے پریشان کر رکھا تھا، میں نے اللّه سے جو گھر مانگا تھا اس کے آگے نہر تھی، مکان تو مل گیا، پر اس کے آگے نہر نہیں تھی۔ میں نے ایک عالم دین سے پوچھا کہ " الله تعالٰی تو فرماتا ہے کہ مجھ سے جو مانگو میں تمہیں عطا کروں گا، میں نے الله سے نہر کنارے گھر مانگا تھا، گھر تو مل گیا، لیکن نہر نہیں ملی...!!" اُن عالمِ دین کو میری دُعا اور میرے ایقانِ قبولیت پر بڑی حیرت ہوئی، انہوں نے دریافت کیا، " اس وقت آپ کے گھر کے سامنے کیا ہے؟؟" میں نے کہا، " اس وقت ہمارے گھر کے سامنے ایک خوبصورت مسجد ہے!!" عالمِ دین مسکرائے اور فرمایا، "یہ نہر ہی تو ہے!!" پھر انہوں نے میرے سامنے یہ حدیثِ مبارکہ بیان کی کہ!! حدیث میں نبی کریم ﷺ نے ایک صحابی سے فرمایا کہ، "آدمی کا گھر نہر کنارے ہو اور وہ اس میں روزانہ پانچ مرتبہ غسل کرے تو کیا اس کے بدن پر میل کچیل رہے گا؟" صحابہ کرام رضی اللّٰه عنہما نے جواب دیا، "نہیں یا رسول الله ، اس کے بدن پر میل کچیل باقی نہیں رہے گا۔" فرمایا، " یہی حال پانچ نمازوں کا ہے، ان کے ذریعہ اللّه تعالٰی گناہوں کو مٹا ڈالتا ہے...!" میری آنکھوں سے خوشی اور تشکر کے آنسو رواں تھے، بے شک میرے رب نے نہر کے سامنے گھر عطا کر دیا تھا...!!!

آزمائش سے حفاظت کی دعا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشا د گرامی ہے: ’’ جو شخص کسی مصیبت زدہ آدمی کو دیکھ کر درج ذیل دعا پڑھے تو وہ اس آزمائش سے محفوظ رہتا ہے: ﴿اَلْحَمْدُلِلّٰہ الَّذِیْ عَافَانِیْ مِمَّاابْتَلاَکَ بِہٖ وَفَضَّلَنِیْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقَ تَفْضِیْلاً﴾ ’’تمام تعریفیں اس اللہ کیلئے ہیں جس نے مجھے اس چیز سے عافیت دی جس میں تجھے مبتلا کیااور اس نے اپنے پیدا کئے ہوئے بہت سے لوگوں پر مجھے فضیلت بخشی۔‘‘ [ترمذی:حسن] اورارشاد باری ہے: ﴿فَاذْکُرُوْا آلَائَ اللّٰہِ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ﴾[الاعراف:۶۹] ’’ پس اللہ کی نعمتوں کو یاد کیا کرو تاکہ تم کامیابی پا جاؤ۔‘‘

مصیبت کے وقت دعا کرنے کا بیان

اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہ کلمات سکھائے کہ میں سخت تکلیف کے وقت پڑھا کروں، (وہ کلمات یہ ہیں) «الله الله ربي لا أشرك به شيئا» ”اللہ، اللہ ہی میرا رب ہے میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتی۔‏‏‏‏“ [سنن ابن ماجه/كتاب الدعاء/حدیث: 3882] اردو حاشہ: فوائد و مسائل: پریشانی کے موقع پر الفاظ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ میں اللہ کی رحمت سے اُمید رکھتا ہوں۔ کہ وہی میری پریشانی دور کرے گا۔ شرک عام طور پر پریشانی کے موقع پر ہی کیا جاتا ہے۔ کہ اللہ کے بندوں سے مشکلات کے حل اور پریشانی دور کرنے کی درخواست کی جاتی ہے۔ اور تصور کیا جاتا ہے کہ فوت شدہ بزرگ نذرانے لے کر ہماری حاجتیں پوری کردیں گے۔ لیکن ایک توحید پرست کی توحید کی شان بھی ایسے موقع پر ہی ظاہر ہوتی ہے۔ جب وہ سب کو چھوڑ کر صرف ایک اللہ کے آگےاپنی مصیبت اور تکلیف کا اظہار کرتا ہے۔ اور اسی سے فریاد رسی کی امید رکھتا ہے۔

اَللّٰھُمَّ أَنْتَ رَبِّیْ لَااِلٰهَ اِلَّا أَنْتَ خَلَقْتَنِیْ

اَللّٰھُمَّ أَنْتَ رَبِّیْ لَااِلٰهَ اِلَّا أَنْتَ خَلَقْتَنِیْ وَأَنَا عَبْدُكَ وَاَنَا عَلٰی عَھْدِكَ وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ أَعُوْذُبِكَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ اَبُوْئُ لَكَ بِنِعْمَتِكَ عَلَیَّ وَ أَبُوْئُ بِذَنْبِیْ فَاغْفِرْلِیْ اِنَّهُ لَا یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اَنْتَ اے الله! تو ہی میرا رب ہے،تیرے سوا کوئی معبود نہیں،تو نے مجھے پید اکیا اور میں تیرا بندہ ہوں اور میں اپنی استطاعت کے مطابق تجھ سے کیے ہوئے عہد اور وعدے پر قائم ہوں،میں تیری پناہ لیتا ہوں ہر برائی سے جو میں نے کی،میں اپنے اوپر تیری عطا کردہ نعمتوں کا اعتراف کرتا ہوںاور اپنے گناہ کااعتراف کرتا ہوں،پس مجھے بخش دے،یقینا تیرے سوا کوئی گناہوں کو بخش نہیں سکتا

فرشتوں کا بیان

حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْأَعْرَجِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ الْمَلَائِكَةُ يَتَعَاقَبُونَ مَلَائِكَةٌ بِاللَّيْلِ وَمَلَائِكَةٌ بِالنَّهَارِ وَيَجْتَمِعُونَ فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ وَصَلَاةِ الْعَصْرِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ الَّذِينَ بَاتُوا فِيكُمْ فَيَسْأَلُهُمْ وَهُوَ أَعْلَمُ، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ:‏‏‏‏ كَيْفَ تَرَكْتُمْ عِبَادِي ؟، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُونَ:‏‏‏‏ تَرَكْنَاهُمْ يُصَلُّونَ وَأَتَيْنَاهُمْ يُصَلُّونَ. ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، کہا ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ فرشتے آگے پیچھے زمین پر آتے جاتے رہتے ہیں، کچھ فرشتے رات کے ہیں اور کچھ دن کے اور یہ سب فجر اور عصر کی نماز میں جمع ہوجاتے ہیں۔ پھر وہ فرشتے جو تمہارے یہاں رات میں رہے۔ اللہ کے حضور میں جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان سے دریافت فرماتا ہے .... حالانکہ وہ سب سے زیادہ جاننے والا ہے .... کہ تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا، وہ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ جب ہم نے انہیں چھوڑا تو وہ (فجر کی) نماز پڑھ رہے تھے۔ اور اسی طرح جب ہم ان کے یہاں گئے تھے، جب بھی وہ (عصر) کی نماز پڑھ رہے تھے۔ Narrated Abu Hurairah (RA): The Prophet ﷺ said, "Angels keep on descending from and ascending to the Heaven in turn, some at night and some by daytime, and all of them assemble together at the time of the Fajr and Asr prayers. Then those who have stayed with you over-night, ascent unto Allah Who asks them, and He knows the answer better than they, "How have you left My slaves?" They reply, "We have left them praying as we found them praying." If anyone of you says "Amin" (during the Prayer at the end of the recitation of Surat-al-Faitiha), and the angels in Heaven say the same, and the two sayings coincide, all his past sins will be forgiven."

سورۃ الرحمن کی اس آیت کی تفسیر کہ سورج اور چاند دونوں حساب سے چلتے ہیں

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْأَعْمَشِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَبِي ذَرٍّ حِينَ غَرَبَتِ الشَّمْسُ تَدْرِي:‏‏‏‏ أَيْنَ تَذْهَبُ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَإِنَّهَا تَذْهَبُ حَتَّى تَسْجُدَ تَحْتَ الْعَرْشِ، ‏‏‏‏‏‏فَتَسْتَأْذِنَ فَيُؤْذَنُ لَهَا وَيُوشِكُ أَنْ تَسْجُدَ فَلَا يُقْبَلَ مِنْهَا وَتَسْتَأْذِنَ فَلَا يُؤْذَنَ لَهَا، ‏‏‏‏‏‏يُقَالُ لَهَا:‏‏‏‏ ارْجِعِي مِنْ حَيْثُ جِئْتِ فَتَطْلُعُ مِنْ مَغْرِبِهَا فَذَلِكَ قَوْلُهُ تَعَالَى وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ سورة يس آية 38. ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابراہیم تیمی نے، ان سے ان کے باپ یزید بن شریک نے اور ان سے ابوذر غفاری ؓ نے بیان کیا کہ : نبی کریم ﷺ نے جب سورج غروب ہوا تو ان سے پوچھا کہ تم کو معلوم ہے یہ سورج کہاں جاتا ہے؟ میں نے عرض کی کہ اللہ اور اس کے رسول ہی کو علم ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ جاتا ہے اور عرش کے نیچے پہنچ کر پہلے سجدہ کرتا ہے۔ پھر (دوبارہ آنے) کی اجازت چاہتا ہے اور اسے اجازت دی جاتی ہے اور وہ دن بھی قریب ہے، جب یہ سجدہ کرے گا تو اس کا سجدہ قبول نہ ہوگا اور اجازت چاہے گا لیکن اجازت نہ ملے گی۔ بلکہ اس سے کہا جائے گا کہ جہاں سے آیا تھا وہیں واپس چلا جا۔ چناچہ اس دن وہ مغربی ہی سے نکلے گا۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان والشمس تجري لمستقر لها ذلک تقدير العزيز العليم (یٰسٓ: 38) میں اسی طرف اشارہ ہے۔ Narrated Abu Dhar (RA): The Prophet ﷺ asked me at sunset, "Do you know where the sun goes (at the time of sunset)?" I replied, "Allah and His Apostle ﷺ know better." He said, "It goes (i.e. travels) till it prostrates Itself underneath the Throne and takes the permission to rise again, and it is permitted and then (a time will come when) it will be about to prostrate itself but its prostration will not be accepted, and it will ask permission to go on its course but it will not be permitted, but it will be ordered to return whence it has come and so it will rise in the west. And that is the interpretation of the Statement of Allah: "And the sun Runs its fixed course For a term (decreed). that is The Decree of (Allah) The Exalted in Might, The All-Knowing." (36.38)

مسلمان کا بہترین مال بکریاں ہیں

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي مَالِكٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي صَعْصَعَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ يُوشِكَ أَنْ يَكُونَ خَيْرَ مَالِ الرَّجُلِ غَنَمٌ يَتْبَعُ بِهَا شَعَفَ الْجِبَالِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَوَاقِعَ الْقَطْرِ يَفِرُّ بِدِينِهِ مِنَ الْفِتَنِ. ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن ابی صعصعہ نے، ان سے ان کے والد نے، اور ان سے ابو سعید خدری ؓ نے بیان کیا کہ : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ایک زمانہ آئے گا جب مسلمان کا سب سے عمدہ مال اس کی وہ بکریاں ہوں گی جنہیں وہ پہاڑ کی چوٹیوں اور بارش کی وادیوں میں لے کر چلا جائے گا تاکہ اس طرح اپنے دین و ایمان کو فتنوں سے بچا لے۔ Narrated Abu Said Al-Khudri(RA): Allahs Apostle ﷺ said, "There will come a time when the best property of a man will be sheep which he will graze on the tops of mountains and the places where rain falls (i.e. pastures) escaping to protect his religion from afflictions."

چار چیزیں زندگی میں کبھی نہ چھوڑیں

1-شکر کرنا نہ چھوڑیں ورنہ آپ نعمتوں میں زیادتی اور اضافے سے محروم ہو جائیں گے۔کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيْدَنَّكُمْ (اگر تم شکر کرو گے تو میں تم کو مزید دوں گا) (سورة إبراہيم :آیت 7) 2-اللہ تعالیٰ کا ذکر نہ چھوڑیں ورنہ آپ اس سے محروم ہو جائیں گے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو یاد رکھے۔کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: فَاذْکُرُوْنِیْ اَذْکُرْکُمْ (تم میرا ذکر کرو میں تمہیں یاد رکھوں گا) (سورة البقرة: آیت 152) 3-دعا کو نہ چھوڑیں ورنہ قبولیت سے محروم ہو جائیں گے۔کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: أَدْعُوْنِيْ أَسْتَجِبْ لَكُمْ (تم مجھے پکارو میں تمہاری دعا قبول کروں گا) (سورة غافر:آیت 60) 4-استغفار نہ چھوڑیں ورنہ نجات سے محروم ہو جائیں گے۔کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: وَمَا كَانَ اللهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُوْن (اللہ تعالیٰ ان کو عذاب دینے والا نہیں ہے جب کہ وہ استغفار کرتے ہوں) (سورة الأنفال :آیت 33)

نیک لوگوں کے گزر جانے کا بیان

حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ بَيَانٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مِرْدَاسٍ الْأَسْلَمِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ يَذْهَبُ الصَّالِحُونَ الْأَوَّلُ فَالْأَوَّلُ، ‏‏‏‏‏‏وَيَبْقَى حُفَالَةٌ كَحُفَالَةِ الشَّعِيرِ أَوِ التَّمْرِ، ‏‏‏‏‏‏لَا يُبَالِيهِمُ اللَّهُ بَالَةً، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ:‏‏‏‏ يُقَالُ حُفَالَةٌ وَحُثَالَةٌ. مجھ سے یحییٰ بن حماد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے بیان بن بشر نے، ان سے قیس بن ابی حازم نے اور ان سے مرداس اسلمی ؓ نے بیان کیا کہ : نبی کریم ﷺ نے فرمایا نیک لوگ یکے بعد دیگرے گزر جائیں گے اس کے بعد جَو کہ بھوسے یا کھجور کے کچرے کی طرح کچھ لوگ دنیا میں رہ جائیں گے جن کی اللہ پاک کو کچھ ذرا بھی پروا نہ ہوگی۔ امام بخاری (رح) نے کہا حفالة اور حثالة‏.‏ دونوں کے ایک معنی ہیں۔ Narrated Mirdas Al-Aslami (RA) : The Prophet ﷺ said, "The righteous (pious people will depart (die) in succession one after the other, and there will remain (on the earth) useless people like the useless husk of barley seeds or bad dates, and Allah will not

مال کو تباہ کرنا یعنی بے جا اسراف منع ہے

حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَجُلٌ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِنِّي أُخْدَعُ فِي الْبُيُوعِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِذَا بَايَعْتَ فَقُلْ لَا خِلَابَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَكَانَ الرَّجُلُ يَقُولُهُ. ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن دینار نے بیان کیا، انہوں نے عمر ؓ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ :نبی کریم ﷺ سے ایک شخص نے عرض کیا کہ خریدو فروخت میں مجھے دھوکا دے دیا جاتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب خریدو فروخت کیا کرو، تو کہہ دیا کر کہ کوئی دھوکا نہ ہو۔ چناچہ پھر وہ شخص اسی طرح کہا کرتا تھا۔ Narrated Ibn Umar (RA): A man came to the Prophet ﷺ and said, "I am often betrayed in bargaining." The Prophet ﷺ advised him, "When you buy something, say (to the seller), No deception." The man used to say so afterwards.

ادائیگی میں مالدار کی طرف سے ٹال مٹول کرنا ظلم ہے

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَعْمَرٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ أَخِي وَهْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ مَطْلُ الْغَنِيِّ ظُلْمٌ. ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالاعلیٰ نے بیان کیا، ان سے معمر نے، ان سے ہمام بن منبہ، وہب بن منبہ کے بھائی نے، انہوں نے ابوہریرہ ؓ سے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، مالدار کی طرف سے (قرض کی ادائیگی میں) ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔ Narrated Abu Hurairah (RA): Allahs Apostle ﷺ said, "Procrastination (delay) in repaying debts by a wealthy person is injustice."

مردوں کو 5 چیزیں یاد رہتی ہیں

عورتوں کا مکر بہت بڑا ہے۔ القرآن دو،تین،چار عورتوں سے نکاح کی اجازت ہے۔ القرآن عورتوں کے عقل اور دین میں نقص ہے۔الحدیث مرد عورتوں کے سربراہ اور نگران ہیں۔ القرآن بہٹے کا وراثت میں بیٹی سے دوگنا حصہ ہے۔ القرآن

استغفار کے فوائد

(¹) گناہ معاف ہونگے ۔ (سورة نوح : ¹⁰) (²) بارش ہوگی ۔ (سورة نوح : ¹¹) (³) اولاد نصیب ہوگی (سورة نوح :¹²) (⁴) مال ملے گا (سورة نوح :¹²) (⁵) باغات ملیں گے (سورة نوح :¹²) (⁶) نہریں جاری ہونگی (سورة نوح : ¹²) (⁷) خوش حالی والی زندگی نصیب ہوگی (سورة ہود : ³) (⁸) طاقت اور قوت ملے گی (سورة ہود : ⁵²) (⁹) مبارکباد ہے اس شخص کے لیے جس کے نامہ اعمال میں استغفار زیادہ ہو ۔ (ابن ماجہ ) (¹⁰) جو پابندی سے استغفار کرے گا تو اللہ اسے ہر غم اور ہر تکلیف سے نجات دے گا ، ہر تنگی سے نکلنے کا راستہ پیدا فرماۓ گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق دے گا ، جہاں سے اسے وہم و گمان بھی نہ ہوگا

جنوں کا بیان اور ان کو ثواب اور عذاب کا ہونا

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَالِكٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي صَعْصَعَةَ الْأَنْصَارِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ أَخْبَرَهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ لَهُ:‏‏‏‏ إِنِّي أَرَاك تُحِبُّ الْغَنَمَ وَالْبَادِيَةَ فَإِذَا كُنْتَ فِي غَنَمِكَ وَبَادِيَتِكَ فَأَذَّنْتَ بِالصَّلَاةِ فَارْفَعْ صَوْتَكَ بِالنِّدَاءِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ لَا يَسْمَعُ مَدَى صَوْتِ الْمُؤَذِّنِ جِنٌّ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا إِنْسٌ وَلَا شَيْءٌ إِلَّا شَهِدَ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَبُو سَعِيدٍ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے امام مالک نے، ان سے عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن ابی صعصعہ انصاری نے اور انہیں ان کے والد نے خبر دی کہ ان سے ابو سعید خدری ؓ نے کہا میں دیکھتا ہوں کہ تم کو جنگل میں رہ کر بکریاں چرانا بہت پسند ہے۔ اس لیے جب کبھی اپنی بکریوں کے ساتھ تم کسی بیابان میں موجود ہو اور (وقت ہونے پر) نماز کے لیے اذان دو تو اذان دیتے ہوئے اپنی آواز خوب بلند کرو، کیونکہ مؤذن کی آواز اذان کو جہاں تک بھی کوئی انسان، جن یا کوئی چیز بھی سنے گی تو قیامت کے دن اس کے لیے گواہی دے گی۔ ابوسعید ؓ نے کہا کہ یہ حدیث میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی تھی۔ Narrated Abdur-Rahman bin Abdullah bin Abdur-Rahman bin Abi Sasaa Ansari (RA): That Abu Said Al-Khudri(RA) said to his father. "I see you are fond of sheep and the desert, so when you want to pronounce the Adhan, raise your voice with it for whoever will hear the Adhan whether a human being, or a Jinn, or anything else, will bear witness, in favor on the Day of Resurrection." Abu Said added, "I have heard this from Allahs Apostle ﷺ ."

سوموار اور جمعرات کا روزہ رکھنا

وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «تُعْرَضُ الْأَعْمَالُ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ وَالْخَمِيسِ فَأُحِبُّ أَنْ يُعْرَضَ عَمَلِي وَأَنَا صَائِمٌ» رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’پیر اور جمعرات کے روز اعمال پیش کیے جاتے ہیں ، لہذا میں پسند کرتا ہوں کہ میرا عمل اس حال میں پیش کیا جائے کہ میں روزے سے ہوں ۔‘‘ ( رواہ الترمذی )

صبح سویرے سونے کا نقصان

رسول اللهﷺ نے فرمایا کہ:- "ائے اللہ میری امت کے صبح کے وقت میں برکت عطا فرما" صحیح ابی داؤد:(2606) _امام ابن القیم(751ھ) رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:- "اسلاف کرام رحمہم اللہ کے نزدیک فجر کے بعد اور طلوع فجر(اشراق کا وقت) کے درمیان سونا مکروہ عمل تھا کیوں کہ یہ بڑا ہی مفید اور غنیمت والا وقت ہے، یہ وقت رزق کے نزول اور برکتوں کے اترنے کا وقت ہوتا ہے" مدارج السالکین:(1/457) اللہ تعالٰی ہمیں فجر کے بعد کے وقت کو غنیمت جانتے ہوئے اس سے بھر پور فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے آمین من جانب: اقوال السلف والعلماء وانسداد البدع والمنكر.