دعا كى طاقت یا الہٰی! ہمیں اپنا گھر عطا کر جس کے آگے ایک نہر ہو

یہ سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض شہر کا واقعہ ہے۔ ایک نیک خاتون رمضان المبارک میں ہر روز افطار سے پہلے تمام بچوں کو اکٹھا کرتی اور ان سے کہتی کہ جو کچھ میں کہوں اور کروں، تم بھی وہی کہنا اور کرنا، پھر وہ دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتی اور کہتیں "یا الہٰی! ہمیں اپنا گھر عطا کر جس کے آگے ایک نہر ہو." تمام بچے بھی ہاتھ اٹھاتے اور کہتے: "یا الہٰی! ہمیں اپنا گھر عطا کر جس کے آگے ایک نہر ہو...!" اس خاتون کا شوہر ہنستا اور کہتا، "اپنے گھر کی بات تو سمجھ آتی ہے، لیکن یہ گھر کے آگے نہر ہونے کا کیا مطلب؟ اس صحرائی علاقے میں نہر کہاں سے آئے گی؟" بیوی اسے جواباً کہتی: " آپ کو اس سے کیا غرض، یہ ہمارا اور اللّه تعالٰی کا معاملہ ہے، آپ بیچ میں مت آئیے، وہ رب تو کہتا ہے، مجھ سے جو مانگو، میں عطا کروں گا، ہم تو جو جی میں آئے گا، مانگیں گے، اور بار بار مانگیں گے..." غرض وہ اسی طرح بچوں کو اکھٹا کرتی اور خود بھی دعا کرتی اور بچوں سے بھی کرواتی۔ رمضان المبارک بیت گیا۔ ایک دن اس کے شوہر نے کہا: "اب بتاؤ، کہاں ہے تمہارا اپنا گھر، اور کہاں ہے وہ نہر...؟" خاتون نے بڑے یقین سے جواب دیا، " الله تعالیٰ ہمیں ہمارا گھر ضرور دے گا، وہ ہماری تمام مرادیں پوری کرے گا۔" اس سے اگلا واقعہ وہ خود بیان کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ، "میں شوال کے چھ روزے رکھ کر فارغ ہوئی تھی کہ ایک روز بڑا عجیب واقعہ پیش آیا. میرے شوہر عصر کی نماز پڑھ کر مسجد سے نکل رہے تھے کہ ریاض کے ایک امیر آدمی نے ان کا راستہ روکا، میرے شوہر انھیں جانتے تک نہ تھے اس آدمی نے انہیں سلام کیا اور کہا: "میرے پاس ایک گھر ہے، آدھے گھر میں تو میں اپنے والد کے ساتھ رہتا ہوں، مگر گھر کا دوسرا نصف حصہ خالی پڑا ہے۔ اللّه تعالیٰ نے مجھے اور میری اولاد کو اپنے فضل و کرم سے بہت نوازا ہے، ہمیں اس آدھے گھر کی ضرورت نہیں۔ آج اس ارادے سے گھر سے نکلا تھا کہ نماز عصر کے بعد مسجد سے نکلنے والے پہلے آدمی کو میں وہ آدھا گھر ہدیۃً دے دوں گا، یوں آپ سے ملاقات ہوئی تو گزارش ہے کہ میرا آدھا گھر ھدیتہً قبول فرما لیں...!!" بلا قیمت مکان لیتے ہوئے ہمیں تردد ہوا، وہ صاحب کہنے لگے " اگر آپ کی تسلی قیمت دئیے بغیر نہیں ہوتی تو جتنی رقم آپ آسانی سے دے سکتے ہیں، دے دیجئے.!!" خیر ہم نے کچھ اپنے پاس اور کچھ اِدھر اُدھر سے جو رقم اکٹھی کی وہ کم و بیش 8 ہزار ریال بن گئے، وہ رقم ہم نے اس آدمی کے حوالے کر دی، اب ہم اس آدھے مکان کے مالک بن گئے تھے۔ مکان ریاض شہر کے ایک ماڈرن علاقے میں واقع تھا، سچ ہے کہ جو انسان سچے دل سے اللّه تعالٰی کو پکارتا ہے، اللّه تعالٰی بھی اس کی پُکار ضرور سنتا ہے۔ لیکن! ایک بات نے مجھے پریشان کر رکھا تھا، میں نے اللّه سے جو گھر مانگا تھا اس کے آگے نہر تھی، مکان تو مل گیا، پر اس کے آگے نہر نہیں تھی۔ میں نے ایک عالم دین سے پوچھا کہ " الله تعالٰی تو فرماتا ہے کہ مجھ سے جو مانگو میں تمہیں عطا کروں گا، میں نے الله سے نہر کنارے گھر مانگا تھا، گھر تو مل گیا، لیکن نہر نہیں ملی...!!" اُن عالمِ دین کو میری دُعا اور میرے ایقانِ قبولیت پر بڑی حیرت ہوئی، انہوں نے دریافت کیا، " اس وقت آپ کے گھر کے سامنے کیا ہے؟؟" میں نے کہا، " اس وقت ہمارے گھر کے سامنے ایک خوبصورت مسجد ہے!!" عالمِ دین مسکرائے اور فرمایا، "یہ نہر ہی تو ہے!!" پھر انہوں نے میرے سامنے یہ حدیثِ مبارکہ بیان کی کہ!! حدیث میں نبی کریم ﷺ نے ایک صحابی سے فرمایا کہ، "آدمی کا گھر نہر کنارے ہو اور وہ اس میں روزانہ پانچ مرتبہ غسل کرے تو کیا اس کے بدن پر میل کچیل رہے گا؟" صحابہ کرام رضی اللّٰه عنہما نے جواب دیا، "نہیں یا رسول الله ، اس کے بدن پر میل کچیل باقی نہیں رہے گا۔" فرمایا، " یہی حال پانچ نمازوں کا ہے، ان کے ذریعہ اللّه تعالٰی گناہوں کو مٹا ڈالتا ہے...!" میری آنکھوں سے خوشی اور تشکر کے آنسو رواں تھے، بے شک میرے رب نے نہر کے سامنے گھر عطا کر دیا تھا...!!!