بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق

ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” اس سے کہو کہ وہ اسے واپس لے جائے یہاں تک کہ وہ پاک ہو جائے (یعنی اس کی حیض ختم ہو جائے) پھر اس کی حیض ہو جائے، پھر وہ پاک ہو جائے۔ اگر وہ چاہے تو اس سے جنسی تعلق قائم کرنے سے پہلے اسے طلاق دے سکتا ہے اور اگر چاہے تو اسے اپنے پاس رکھ سکتا ہے۔ یہ وہ عدت ہے جس کا اللہ نے حکم دیا ہے۔

کہہ دو کہ میرے لیے اللہ ہی کافی ہے

پھر اگر وہ روگردانی کریں تو کہہ دو کہ میرے لیے اللہ کافی ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اسی پر میں نے بھروسہ کیا ہے اور وہی عرش عظیم کا مالک ہے۔ (9:129) Yet, if they should turn away, then tell them: “Allah is sufficient for me; there is no god but He. In Him I have put my trust. He is the Lord of the Mighty Throne.”

میں ہمیشہ اللہ کی طرف رجوع کرتا ہوں

شعیب نے کہا اے میری قوم! آپ کیا سوچتے ہیں؟ اگر میں اپنے رب کی طرف سے واضح دلیل پر قائم ہوں، اور اس نے مجھے اپنی طرف سے ایک خوبصورت رزق بھی دیا ہے [98] - (کیا میں اس کی ناشکری کروں اور آپ کی خطا اور گناہ میں شریک ہوں؟) اور نہ ہی میں اس کے خلاف کام کرنا چاہتا ہوں تمہیں نصیحت کرنا۔[99] میں جہاں تک ہو سکے چیزوں کو درست کرنے کے علاوہ کچھ نہیں چاہتا ہوں۔ میری مدد صرف اللہ کے ساتھ ہے۔ اسی پر میں نے بھروسہ کیا ہے، اور میں ہمیشہ اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔

کوئی مصیبت اللہ کے حکم بغیر نہیں آتی

کوئی بھی مصیبت اللہ کے حکم کے بغیر نہیں آتی۔ اور جو اللہ پر ایمان رکھتا ہے، اللہ اس کے دل کو سیدھے راستے پر چلا دیتا ہے۔ اللہ کو ہر چیز کا علم ہے۔ Misfortunes can only happen with God’s permission––He will guide the heart of anyone who believes in Him: God knows all things– اس شخص کا دل جو سچے دل سے جانتا اور مانتا ہے کہ سب کچھ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ وہ کائنات کے مالک اور حاکم میں اکیلا ہے۔ کہ اس کے حکم سے ہی کوئی مصیبت آتی ہے اور اس کے حکم سے ہی اسے ٹالا جاسکتا ہے۔ ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے صبر و استقامت اور رضائے الٰہی میں راضی ہونے کے فضل سے نوازا جاتا ہے اور اسے عزم و ہمت کے ساتھ ہر صورت حال کا مقابلہ کرنے کی طاقت عطا ہوتی ہے۔ سخت ترین حالات میں بھی اللہ کے فضل کی امید کی شمع اس کے راستے کو روشن کرتی ہے۔ کوئی مصیبت خواہ کتنی ہی سخت اور آزمائشی ہو اسے مایوس نہیں کر سکتی کہ وہ راہِ راست سے ہٹ جائے یا باطل کی طرف جھک جائے، یا اللہ کے سوا دوسروں کو اپنی شکایت کے ازالے کے لیے پکارے۔ اس طرح ہر مصیبت اس کے لیے خیر و عافیت کے نئے دروازے کھول دیتی ہے اور کوئی مصیبت اس کے لیے مصیبت نہیں رہتی۔

زندگی سے اضطراب کیسے ختم کریں

اضطراب تو ایمان ہے۔اگر اپ کے دل میں یہ خیال رہتا ہے کہ مجھے اپنے پروردگار کے آُگے پیش ہونا ہے۔ معلوم نہیں وہاں کامیابی ہوگی ،معلوم نہیں وہاں ناکامہ ہوگی۔ اس اضطراب سے ایمان کا اظہار ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خدُدا کے ساتھ ایک زندہ تعلق ہے۔ اُدمی غفلت میں نہیں سو رہا۔ اس کو یہ خیال رہتا ہے اور ہر لحاظ کہ ایک دن اپنے رب سے ملنے والا ہوں۔ اور یہ ملاقات محاسبے کی ملاقات ہوگی مجھے س دنیا میں جس امتحان کے لئے بھجا گیا تھا میں وہاں سے کامیاب ہو کر ایا ہوں یا ناکام۔۔ اس اضطراب کو کبھی ختم نہیں کرنا چاہیے۔ اضطراب کو رب کی یاد سے صحیح رخ پر رکھنا اور یہ جو پانچ وقت کی نماز فرض کی گئی ہے یہ ہمیں بار بار اپنے رب کی یاد دلاتی ہے۔ جب اضطراب پیدا ہع رب کو یاد کریں ،تسبیح کریں ،دعا کریں۔

اور تمہارا رب کبھی بھولنے والا نہیں ہے

فرشتے کہیں گے ’’(اے محمد!) ہم آپ کے رب کے حکم کے بغیر نہیں اترتے۔ جو کچھ ہمارے سامنے ہے اور جو ہمارے پیچھے ہے اور جو کچھ اس کے درمیان ہے سب اسی کا ہے۔ تیرا رب بھولنے والا نہیں ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ یہ سورت بڑی تاخیر کے بعد نازل ہوئی ہے۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ بہت مشکل وقت سے گزر رہے تھے اور ہر وقت ان کی رہنمائی اور تسلی کے لیے کسی وحی کی توقع رکھتے تھے۔ جب فرشتہ جبرائیل دوسرے فرشتوں کے ساتھ اس وحی کے ساتھ آیا تو اس نے سب سے پہلے پیغام کا وہ حصہ پہنچا دیا جس کی فوری ضرورت تھی۔ پھر آگے بڑھنے سے پہلے آپ نے یہ الفاظ اللہ کے حکم سے تاخیر کی وضاحت اور اللہ کی طرف سے تسلی اور استقامت کی نصیحت کے لیے کہے۔ یہ تشریح نہ صرف عبارت کے الفاظ سے ہوتی ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض روایات سے بھی ثابت ہوتی ہے جنہیں ابن جریر، ابن کثیر اور روح المعانی کے مصنف نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے۔

منیٰ میں خدا کو یاد کرو

فَإِذَا قَضَيْتُمْ مَنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آبَاءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا فَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ (Al-Baqara : 200) ‎پھر جب حج کے تمام ارکان پورے کرچکو تو (منیٰ میں) خدا کو یاد کرو۔ جس طرح اپنے باپ دادا کو یاد کیا کرتے تھے بلکہ اس سے بھی زیادہ اور بعض لوگ ایسے ہیں جو (خدا سے) التجا کرتے ہیں کہ اے پروردگار ہم کو (جو دنیا ہے) دنیا ہی میں عنایت کر ایسے لوگوں کا آخرت میں کچھ حصہ نہیں ‎وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (Al-Baqara : 201) ‎اور بعضے ایسے ہیں کہ دعا کرتے ہیں کہ پروردگار ہم کو دنیا میں بھی نعمت عطا فرما اور آخرت میں بھی نعمت بخشیو اور دوزخ کے عذاب سے محفوظ رکھیو ‎أُولَئِكَ لَهُمْ نَصِيبٌ مِمَّا كَسَبُوا وَاللَّهُ سَرِيعُ الْحِسَابِ (Al-Baqara : 202) ‎یہی لوگ ہیں جن کے لئے ان کے کاموں کا حصہ (یعنی اجر نیک تیار) ہے اور خدا جلد حساب لینے والا (اور جلد اجر دینے والا) ہے ‎وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُودَاتٍ فَمَنْ تَعَجَّلَ فِي يَوْمَيْنِ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ وَمَنْ تَأَخَّرَ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ لِمَنِ اتَّقَى وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ (Al-Baqara : 203) ‎اور (قیام منیٰ کے) دنوں میں (جو) گنتی کے (دن میں) خدا کو یاد کرو۔ اگر کوئی جلدی کرے (اور) دو ہی دن میں (چل دے) تو اس پر بھی کچھ گناہ نہیں۔ اور جو بعد تک ٹھہرا رہے اس پر بھی کچھ گناہ نہیں۔ یہ باتیں اس شخص کے لئے ہیں جو (خدا سے) ڈرے اور تم لوگ خدا سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ تم سب اس کے پاس جمع کئے جاؤ گے

یہ سورہ آپ کی زندگی بدل سکتی ہے

الٓمٓ الم تَنزِيلُ ٱلْكِتَٰبِ لَا رَيْبَ فِيهِ مِن رَّبِّ ٱلْعَٰلَمِينَ بلاشبہ اس کتاب کا اتارنا تمام جہانوں کے پروردگار کی طرف سے ہے أَمْ يَقُولُونَ ٱفْتَرَىٰهُ بَلْ هُوَ ٱلْحَقُّ مِن رَّبِّكَ لِتُنذِرَ قَوْمًا مَّآ أَتَىٰهُم مِّن نَّذِيرٍ مِّن قَبْلِكَ لَعَلَّهُمْ يَهْتَدُونَ کیا یہ کہتے ہیں کہ اس نے اسے گھڑ لیا ہے۔ (نہیں نہیں) بلکہ یہ تیرے رب تعالیٰ کی طرف سے حق ہے تاکہ آپ انہیں ڈرائیں جن کے پاس آپ سے پہلے کوئی ڈرانے واﻻ نہیں آیا۔ تاکہ وه راه راست پر آجائیں ٱللَّهُ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِى سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِ مَا لَكُم مِّن دُونِهِۦ مِن وَلِىٍّ وَلَا شَفِيعٍ أَفَلَا تَتَذَكَّرُونَ اللہ تعالیٰ وه ہے جس نے آسمان وزمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کو چھ دن میں پیدا کر دیا پھر عرش پر قائم ہوا، تمہارے لئے اس کے سوا کوئی مددگار اور سفارشی نہیں۔ کیا پھر بھی تم نصیحت حاصل نہیں کرتے يُدَبِّرُ ٱلْأَمْرَ مِنَ ٱلسَّمَآءِ إِلَى ٱلْأَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ فِى يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُۥٓ أَلْفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ وه آسمان سے لے کر زمین تک (ہر) کام کی تدبیر کرتا ہے۔ پھر (وه کام) ایک ایسے دن میں اس کی طرف چڑھ جاتا ہے جس کا اندازه تمہاری گنتی کے ایک ہزار سال کے برابر ہے ذَٰلِكَ عَٰلِمُ ٱلْغَيْبِ وَٱلشَّهَٰدَةِ ٱلْعَزِيزُ ٱلرَّحِيمُ یہی ہے چھپے کھلے کا جاننے واﻻ، زبردست غالب بہت ہی مہربان ٱلَّذِىٓ أَحْسَنَ كُلَّ شَىْءٍ خَلَقَهُۥ وَبَدَأَ خَلْقَ ٱلْإِنسَٰنِ مِن طِينٍ جس نے نہایت خوب بنائی جو چیز بھی بنائی اور انسان کی بناوٹ مٹی سے شروع کی ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَهُۥ مِن سُلَٰلَةٍ مِّن مَّآءٍ مَّهِينٍ پھر اس کی نسل ایک بے وقعت پانی کے نچوڑ سے چلائی ثُمَّ سَوَّىٰهُ وَنَفَخَ فِيهِ مِن رُّوحِهِۦ وَجَعَلَ لَكُمُ ٱلسَّمْعَ وَٱلْأَبْصَٰرَ وَٱلْأَفْـِٔدَةَ قَلِيلًا مَّا تَشْكُرُونَ جسے ٹھیک ٹھاک کر کے اس میں اپنی روح پھونکی، اسی نے تمہارے کان آنکھیں اور دل بنائے (اس پر بھی) تم بہت ہی تھوڑا احسان مانتے ہو وَقَالُوٓا۟ أَءِذَا ضَلَلْنَا فِى ٱلْأَرْضِ أَءِنَّا لَفِى خَلْقٍ جَدِيدٍۭ بَلْ هُم بِلِقَآءِ رَبِّهِمْ كَٰفِرُونَ انہوں نے کہا کیا جب ہم زمین میں مل جائیں گے کیا پھر نئی پیدائش میں آجائیں گے؟ بلکہ (بات یہ ہے) کہ وه لوگ اپنے پروردگار کی ملاقات کے منکر ہیں قُلْ يَتَوَفَّىٰكُم مَّلَكُ ٱلْمَوْتِ ٱلَّذِى وُكِّلَ بِكُمْ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ کہہ دیجئے! کہ تمہیں موت کا فرشتہ فوت کرے گا جو تم پر مقرر کیا گیا ہے پھر تم سب اپنے پروردگار کی طرف لوٹائے جاؤ گے وَلَوْ تَرَىٰٓ إِذِ ٱلْمُجْرِمُونَ نَاكِسُوا۟ رُءُوسِهِمْ عِندَ رَبِّهِمْ رَبَّنَآ أَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَٱرْجِعْنَا نَعْمَلْ صَٰلِحًا إِنَّا مُوقِنُونَ a کاش کہ آپ دیکھتے جب کہ گناه گار لوگ اپنے رب تعالیٰ کے سامنے سر جھکائے ہوئے ہوں گے، کہیں گے اے ہمارے رب! ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا اب تو ہمیں واپس لوٹا دے ہم نیک اعمال کریں گے ہم یقین کرنے والے ہیں وَلَوْ شِئْنَا لَءَاتَيْنَا كُلَّ نَفْسٍ هُدَىٰهَا وَلَٰكِنْ حَقَّ ٱلْقَوْلُ مِنِّى لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ ٱلْجِنَّةِ وَٱلنَّاسِ أَجْمَعِينَ اگر ہم چاہتے تو ہر شخص کو ہدایت نصیب فرما دیتے، لیکن میری یہ بات بالکل حق ہو چکی ہے کہ میں ضرور ضرور جہنم کو انسانوں اور جنوں سے پر کردوں گا فَذُوقُوا۟ بِمَا نَسِيتُمْ لِقَآءَ يَوْمِكُمْ هَٰذَآ إِنَّا نَسِينَٰكُمْ وَذُوقُوا۟ عَذَابَ ٱلْخُلْدِ بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ اب تم اپنے اس دن کی ملاقات کے فراموش کر دینے کا مزه چکھو، ہم نے بھی تمہیں بھلا دیا اور اپنے کیے ہوئے اعمال (کی شامت) سے ابدی عذاب کا مزه چکھو إِنَّمَا يُؤْمِنُ بِـَٔايَٰتِنَا ٱلَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا۟ بِهَا خَرُّوا۟ سُجَّدًا وَسَبَّحُوا۟ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ ہماری آیتوں پر وہی ایمان ﻻتے ہیں جنہیں جب کبھی ان سے نصیحت کی جاتی ہے تو وه سجدے میں گر پڑتے ہیں اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح پڑھتے ہیں اور تکبر نہیں کرتے ہیں تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ ٱلْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَٰهُمْ يُنفِقُونَ ان کی کروٹیں اپنے بستروں سے الگ رہتی ہیں اپنے رب کو خوف اور امید کے ساتھ پکارتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے وه خرچ کرتے ہیں فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ أُخْفِىَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَآءًۢ بِمَا كَانُوا۟ يَعْمَلُونَ کوئی نفس نہیں جانتا جو کچھ ہم نے ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک ان کے لئے پوشیده کر رکھی ہے، جو کچھ کرتے تھے یہ اس کا بدلہ ہے أَفَمَن كَانَ مُؤْمِنًا كَمَن كَانَ فَاسِقًا لَّا يَسْتَوُۥنَ کیا وه جو مومن ہو مثل اس کے ہے جو فاسق ہو؟ یہ برابر نہیں ہو سکتے أَمَّا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَعَمِلُوا۟ ٱلصَّٰلِحَٰتِ فَلَهُمْ جَنَّٰتُ ٱلْمَأْوَىٰ نُزُلًۢا بِمَا كَانُوا۟ يَعْمَلُونَ جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور نیک اعمال بھی کیے ان کے لئے ہمیشگی والی جنتیں ہیں، مہمانداری ہے ان کے اعمال کے بدلے جو وه کرتے تھے وَأَمَّا ٱلَّذِينَ فَسَقُوا۟ فَمَأْوَىٰهُمُ ٱلنَّارُ كُلَّمَآ أَرَادُوٓا۟ أَن يَخْرُجُوا۟ مِنْهَآ أُعِيدُوا۟ فِيهَا وَقِيلَ لَهُمْ ذُوقُوا۟ عَذَابَ ٱلنَّارِ ٱلَّذِى كُنتُم بِهِۦ تُكَذِّبُونَ لیکن جن لوگوں نے حکم عدولی کی ان کا ٹھکانا دوزخ ہے۔ جب کبھی اس سے باہر نکلنا چاہیں گے اسی میں لوٹا دیئے جائیں گے۔ اور کہہ دیا جائے گا کہ اپنے جھٹلانے کے بدلے آگ کا عذاب چکھو وَلَنُذِيقَنَّهُم مِّنَ ٱلْعَذَابِ ٱلْأَدْنَىٰ دُونَ ٱلْعَذَابِ ٱلْأَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ بالیقین ہم انہیں قریب کے چھوٹے سے بعض عذاب اس بڑے عذاب کے سوا چکھائیں گے تاکہ وه لوٹ آئیں وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن ذُكِّرَ بِـَٔايَٰتِ رَبِّهِۦ ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْهَآ إِنَّا مِنَ ٱلْمُجْرِمِينَ مُنتَقِمُونَ اس سے بڑھ کر ﻇالم کون ہے جسے اللہ تعالیٰ کی آیتوں سے وعﻆ کیا گیا پھر بھی اس نے ان سے منھ پھیر لیا، (یقین مانو) کہ ہم بھی گناه گاروں سے انتقام لینے والے ہیں وَلَقَدْ ءَاتَيْنَا مُوسَى ٱلْكِتَٰبَ فَلَا تَكُن فِى مِرْيَةٍ مِّن لِّقَآئِهِۦ وَجَعَلْنَٰهُ هُدًى لِّبَنِىٓ إِسْرَٰٓءِيلَ بیشک ہم نے موسیٰ کو کتاب دی، پس آپ کو ہرگز اس کی ملاقات میں شک نہ کرنا چاہئے اور ہم نے اسے بنی اسرائیل کی ہدایت کا ذریعہ بنایا وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا۟ وَكَانُوا۟ بِـَٔايَٰتِنَا يُوقِنُونَ اور جب ان لوگوں نے صبر کیا تو ہم نے ان میں سے ایسے پیشوا بنائے جو ہمارے حکم سے لوگوں کو ہدایت کرتے تھے، اور وه ہماری آیتوں پر یقین رکھتے تھے إِنَّ رَبَّكَ هُوَ يَفْصِلُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ ٱلْقِيَٰمَةِ فِيمَا كَانُوا۟ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ آپ کا رب ان (سب) کے درمیان ان (تمام) باتوں کا فیصلہ قیامت کے دن کرے گا جن میں وه اختلاف کر رہے ہیں أَوَلَمْ يَهْدِ لَهُمْ كَمْ أَهْلَكْنَا مِن قَبْلِهِم مِّنَ ٱلْقُرُونِ يَمْشُونَ فِى مَسَٰكِنِهِمْ إِنَّ فِى ذَٰلِكَ لَءَايَٰتٍ أَفَلَا يَسْمَعُونَ کیا اس بات نے بھی انہیں ہدایت نہیں دی کہ ہم نے ان سے پہلے بہت سی امتوں کو ہلاک کر دیا جن کے مکانوں میں یہ چل پھر رہے ہیں۔ اس میں تو (بڑی) بڑی نشانیاں ہیں۔ کیا پھر بھی یہ نہیں سنتے؟ أَوَلَمْ يَرَوْا۟ أَنَّا نَسُوقُ ٱلْمَآءَ إِلَى ٱلْأَرْضِ ٱلْجُرُزِ فَنُخْرِجُ بِهِۦ زَرْعًا تَأْكُلُ مِنْهُ أَنْعَٰمُهُمْ وَأَنفُسُهُمْ أَفَلَا يُبْصِرُونَ کیا یہ نہیں دیکھتے کہ ہم پانی کو بنجر (غیر آباد) زمین کی طرف بہا کر لے جاتے ہیں پھر اس سے ہم کھیتیاں نکالتے ہیں جسے ان کے چوپائے اور یہ خود کھاتے ہیں، کیا پھر بھی یہ نہیں دیکھتے؟ وَيَقُولُونَ مَتَىٰ هَٰذَا ٱلْفَتْحُ إِن كُنتُمْ صَٰدِقِينَ اور کہتے ہیں کہ یہ فیصلہ کب ہوگا؟ اگر تم سچے ہو (تو بتلاؤ) قُلْ يَوْمَ ٱلْفَتْحِ لَا يَنفَعُ ٱلَّذِينَ كَفَرُوٓا۟ إِيمَٰنُهُمْ وَلَا هُمْ يُنظَرُونَ جواب دے دو کہ فیصلے والے دن ایمان ﻻنا بے ایمانوں کو کچھ کام نہ آئے گا اور نہ انہیں ڈھیل دی جائے گی فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَٱنتَظِرْ إِنَّهُم مُّنتَظِرُونَ اب آپ ان کا خیال چھوڑ دیں اور منتظر رہیں۔ یہ بھی منتظر ہیں

In the grave no more than one evening or one morning

كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَهَا لَمْ يَلْبَثُوٓا۟ إِلَّا عَشِيَّةً أَوْ ضُحَىٰهَا On the Day they see it, they will feel as though they had stayed (in the grave) no more than one evening or one morning. جس دن وہ اسے دیکھیں گے تو محسوس کریں گے کہ گویا وہ (قبر میں) ایک شام یا ایک صبح سے زیادہ ٹھہرے تھے۔ 53 of Surah Younus. 56 of Surah Bani Israil . 80 of Surah TaHa . 101 of Surah Al-Mominoon. 81, 82 of Surah Ar-Room

میری مدد صرف اللہ کے ساتھ ہے اسی پر میں نے بھروسہ کیا ہے

قَالَ يَـٰقَوْمِ أَرَءَيْتُمْ إِن كُنتُ عَلَىٰ بَيِّنَةٍۢ مِّن رَّبِّى وَرَزَقَنِى مِنْهُ رِزْقًا حَسَنًۭا ۚ وَمَآ أُرِيدُ أَنْ أُخَالِفَكُمْ إِلَىٰ مَآ أَنْهَىٰكُمْ عَنْهُ ۚ إِنْ أُرِيدُ إِلَّا ٱلْإِصْلَـٰحَ مَا ٱسْتَطَعْتُ ۚ وَمَا تَوْفِيقِىٓ إِلَّا بِٱللَّهِ ۚ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ شعیب نے کہا: اے میری قوم! آپ کیا سوچتے ہیں؟ اگر میں اپنے رب کی طرف سے واضح دلیل پر قائم ہوں اور اس نے مجھے اپنی طرف سے ایک خوبصورت رزق بھی دیا ہے تو کیا میں اس کی ناشکری کر کے تمہاری خطا اور گناہ میں شریک ہو جاؤں؟ اور نہ ہی میں تمھیں جو نصیحت کرتا ہوں اس کے خلاف کام کرنا چاہتا ہوں۔ میں جہاں تک ہو سکے چیزوں کو درست کرنے کے علاوہ کچھ نہیں چاہتا ہوں۔ میری مدد صرف اللہ کے ساتھ ہے۔ اسی پر میں نے بھروسہ کیا ہے اور میں ہمیشہ اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔

اللہ کی رحمت سے کبھی امید مت ہارنا سورۃ الزمر

(اے پیغمبر میری طرف سے لوگوں کو) کہہ دو کہ اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا۔ اللہ تو سب گناہوں کو بخش دیتا ہے۔ (اور) وہ تو بخشنے والا مہربان ہے (سورہ الزمر:53)

مومن کا معاملہ عجیب ہے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں بیان فرمائی ہے جسے تمام راویوں نے متفقہ طور پر نقل کیا ہے، فرمایا: مومن کا معاملہ عجیب ہے! اللہ تعالیٰ اس کے لیے جو فیصلہ کرے وہ اس کے لیے اچھا ہے۔ جب اس پر کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ اسے صبر سے برداشت کرتا ہے اور یہ اس کے لیے اچھا ثابت ہوتا ہے۔ جب اسے خوشحالی نصیب ہوتی ہے تو وہ اپنے رب کا شکر ادا کرتا ہے اور یہ بھی اس کے لیے اچھا ثابت ہوتا ہے۔ ایسی خوش نصیبی صرف مومن کو ملتی ہے۔ the Prophet (peace be upon him) in a Hadith which has been reported unanimously by all the reporters, saying: Strange is the affair of the believer! Whatever Allah decrees for him is good for him. When an affliction befalls him, he endures it patiently, and this proves good for him. When he is blessed with prosperity, he thanks his Lord, and this too proves good for him. Such a good fortune only falls to the lot of a believer.

نہ تو تیرے ربّ نے تجھے چھوڑا ہے اور نہ وہ بیزار ہوگیا ہے

(اے پیغمبر) آپ کے رب نے نہ آپ کو چھوڑا ہے اور نہ وہ ناراض ہوا ہے۔ (93:4) یقیناً آنے والا تمہارے لیے اس سے بہتر ہے جو گزر چکا ہے۔ (93:5) یقیناً تمہارا رب عنقریب تمہیں اتنی وسعت دے گا کہ تم خوش ہو جاؤ گے۔ (93:6) کیا اس نے تمہیں یتیم نہیں پایا پھر تمہیں پناہ دی؟ (O Prophet), your Lord has neither forsaken you, nor is He displeased. روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا سلسلہ کچھ مدت کے لیے معطل رہا۔ مختلف روایات نے اس دور کے مختلف ادوار کا ذکر کیا ہے۔ ابن جریج نے اسے 12 دن، کلبی نے 15 دن، ابن عباس نے 25 دن اور سدی اور مقاتل نے اسے 40 دن تک بڑھایا ہے۔ بہرحال یہ مدت اتنی طویل تھی کہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غمگین کر دیا اور مخالفین کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو طعنے دینے کا موقع ملا۔ کیونکہ جب بھی کوئی نئی سورت نازل ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے لوگوں کے سامنے پڑھا کرتے تھے۔ چنانچہ جب کافی دنوں تک اس نے ان کو کوئی نئی وحی نہ سنائی تو مخالفین نے سمجھا کہ وہ چشمہ جہاں سے وحی آتی تھی سوکھ گئی ہے۔ جندب بن عبداللہ البجلی نے بیان کیا ہے کہ جب جبرائیل فرشتہ آنا بند ہوا تو مشرکوں نے کہنا شروع کر دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے رب نے چھوڑ دیا ہے۔ (ابن جریر، طبرانی، عبد بن حمید، سعید بن منصور، ابن مردویہ)

اے ہمارے رب تو نے یہ سب بے مقصد نہیں بنایا

رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًا ۚ سُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ. رَبَّنَآ اِنَّكَ مَنْ تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ اَخْزَيْتَهٗ ۭ وَمَا لِلظّٰلِمِيْنَ مِنْ اَنْصَارٍ. رَبَّنَآ اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُّنَادِيْ لِلْاِيْمَانِ اَنْ اٰمِنُوْا بِرَبِّكُمْ فَاٰمَنَّا ۚ رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيِّاٰتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَارِ. رَبَّنَا وَاٰتِنَا مَا وَعَدْتَّنَا عَلٰي رُسُلِكَ وَلَا تُخْزِنَا يَوْمَ الْقِيٰمَةِ ۭاِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيْعَادَ.

تمہارا ربّ خوب جانتا ہے جو تمہارے دلوں میں ہے

جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے تمہارا رب خوب جانتا ہے۔ اگر تم پرہیزگار ہو تو وہ توبہ کرنے والوں کو معاف کر دے گا۔ فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان ہمیشہ اپنے رب کا ناشکرا رہتا ہے۔ Your Lord is best aware of what is in your hearts. If you are righteous, He will indeed forgive those who relent and revert (to serving Allah). جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے تمہارا رب خوب جانتا ہے۔ اگر تم پرہیزگار ہو تو وہ ان لوگوں کو معاف کر دے گا جو توبہ کرتے ہیں اور رجوع کرتے ہیں

بے شک نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں

And establish the Prayer at the two ends of the day and in the first hours of the night. Indeed the good deeds drive away the evil deeds. This is a Reminder to those who are mindful of Allah اور دن کے دونوں سروں اور رات کی پہلی ساعتوں میں نماز قائم کرو۔ بے شک نیکیاں برائیوں کو دور کرتی ہیں۔ یہ ان لوگوں کے لیے نصیحت ہے جو اللہ سے ڈرتے ہیں [114] ۱۱۳۔ یہ تین وقت یعنی صبح، شام اور عشاء میں نماز کی ترغیب تھی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ معراج میں دن میں پانچ مرتبہ نماز کے فرض ہونے سے پہلے یہ نازل ہوا تھا۔ (وضاحت کے لیے دیکھیں (سورہ الاسراء کی آیت نمبر 95)، (سورہ طٰہٰ کی آیت نمبر 111) اور (سورہ روم کی آیت نمبر 124)۔ 114. دنیا سے برائی کو مٹانے کا یہ علاج ہے: اچھے کام کرو اور ان کے ساتھ برائی کو شکست دو۔ آپ کو نیک بنانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ نماز قائم کی جائے، جو آپ کو بار بار اللہ کی یاد دلائے گی: جس سے آپ میں وہ خوبیاں پیدا ہوں گی جو آپ کو برائی کے خلاف منظم اور متحد محاذ کے خلاف کامیابی سے لڑنے میں مدد فراہم کریں گی۔ سچائی کا مشن یہ آپ کو عملاً فضیلت اور اصلاح کا نظام قائم کرنے کے قابل بنائے گا۔ (وضاحت کے لیے دیکھیں

اور بے شک یہ قرآن مومنوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے

and it is a guidance and mercy for the believers اور یہ مومنوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے یعنی یہ ان لوگوں کے لیے رحمت اور ہدایت ہے جو قرآن کے پیغام کو قبول کرتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں۔ ایسے لوگ ان خرابیوں سے بچ جائیں گے جن میں ان کے اپنے لوگ ملوث ہیں۔ وہ قرآن کے ذریعہ زندگی کا صحیح راستہ تلاش کریں گے اور انہیں اللہ کی طرف سے ایسی نعمتیں نصیب ہوں گی جن کا آج قریش کے کفار تصور بھی نہیں کر سکتے۔ اللہ کی رحمت کی یہ بارش چند سالوں کے بعد دنیا نے بھی دیکھی۔ وہی لوگ جو صحرائے عرب کے کسی گوشے میں نامعلوم زندگی گزار رہے تھے اور کفر کی حالت میں زیادہ سے زیادہ کامیاب حملہ آور بن سکتے تھے، قرآن پر ایمان لانے کے بعد اچانک دنیا کے رہبر، قوموں کے رہنما، بنانے والے بن کر ابھرے۔ انسانی تہذیب اور دنیا کے ایک وسیع حصے پر حکمرانوں کا۔

اور اس نے تمہیں حاجت مند پایا تو غنی کر دیا

And He found you poor and made [you] self-sufficient. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد نے آپ کے لیے وراثت میں صرف ایک اونٹنی اور ایک لونڈی چھوڑی تھی۔ چنانچہ اس نے اپنی زندگی غربت کی حالت میں شروع کی۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ قریش کی سب سے مالدار خاتون خدیجہؓ نے پہلے آپﷺ کو تجارت میں شریک بنایا، پھر آپﷺ سے شادی کر لی اور آپﷺ نے اس کی تمام تجارت اور کاروبار سنبھال لیا۔ اس طرح وہ نہ صرف دولت مند ہو گیا بلکہ اس کی دولت کسی طرح بھی اس کی بیوی کے وسائل پر منحصر نہیں تھی۔ اس کی اپنی محنت اور قابلیت اس کی تجارت اور تجارت کو فروغ دینے میں بہت آگے نکل گئی تھی۔

آئیے قرآن سے پوچھیں کہ یہ ہمارے پاس کیوں آیا

تمام بنی نوع انسان ایک امت تھے (یعنی ایک عقیدہ پر)۔ پھر (ایمان کے معاملات میں اختلاف کرنے کے بعد) اللہ نے انبیاء بھیجے جو خوشخبری اور تنبیہ کرتے تھے، اور ان کے ساتھ حق کے ساتھ کتاب نازل کی تاکہ لوگوں کے درمیان ان کے تنازعات کا فیصلہ کریں۔ لیکن یہ (کتاب) ان کے سوا اور کوئی نہیں تھی جن کو یہ کتاب دی گئی تھی جنہوں نے ایک دوسرے سے حسد کی بنا پر کھلی نشانیاں آنے کے بعد اس میں اختلاف کیا۔ پھر اللہ نے اپنی مرضی سے ایمان والوں کو اس حق کی طرف ہدایت دی جس پر وہ اختلاف کرتے تھے۔ اور اللہ جسے چاہتا ہے سیدھی راہ دکھاتا ہے۔

خدا فتنہ انگیزی کو پسند نہیں کرتا

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُعْجِبُكَ قَوْلُهُ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيُشْهِدُ اللَّهَ عَلَى مَا فِي قَلْبِهِ وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصَامِ (Al-Baqara : 204) ‎اور کوئی شخص تو ایسا ہے جس کی گفتگو دنیا کی زندگی میں تم کو دلکش معلوم ہوتی ہے اور وہ اپنی مانی الضمیر پر خدا کو گواہ بناتا ہے حالانکہ وہ سخت جھگڑالو ہے ‎وَإِذَا تَوَلَّى سَعَى فِي الْأَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيهَا وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ (Al-Baqara : 205) ‎اور جب پیٹھ پھیر کر چلا جاتا ہے تو زمین میں دوڑتا پھرتا ہے تاکہ اس میں فتنہ انگیزی کرے اور کھیتی کو (برباد) اور (انسانوں اور حیوانوں کی) نسل کو نابود کردے اور خدا فتنہ انگیزی کو پسند نہیں کرتا ‎وَإِذَا قِيلَ لَهُ اتَّقِ اللَّهَ أَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْإِثْمِ فَحَسْبُهُ جَهَنَّمُ وَلَبِئْسَ الْمِهَادُ (Al-Baqara : 206) ‎اور جب اس سے کہا جاتا ہے کہ خدا سے خوف کر تو غرور اس کو گناہ میں پھنسا دیتا ہے۔ سو ایسے کو جہنم سزاوار ہے۔ اور وہ بہت برا ٹھکانہ ہے ‎وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ وَاللَّهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ (Al-Baqara : 207) ‎اور کوئی شخص ایسا ہے کہ خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اپنی جان بیچ ڈالتا ہے اور خدا بندوں پر بہت مہربان ہے ‎يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ (Al-Baqara : 208) ‎مومنو! اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ اور شیطان کے پیچھے نہ چلو وہ تو تمہارا صریح دشمن ہے ‎فَإِنْ زَلَلْتُمْ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَتْكُمُ الْبَيِّنَاتُ فَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (Al-Baqara : 209) ‎پھر اگر تم احکام روشن پہنچ جانے کے بعد لڑکھڑاجاؤ تو جان جاؤ کہ خدا غالب (اور) حکمت والا ہے

Allah burdens not a person beyond his scope

ۭرَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَآ اِنْ نَّسِيْنَآ اَوْ اَخْطَاْنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَآ اِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهٗ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهٖ ۚ وَاعْفُ عَنَّا ۪ وَاغْفِرْ لَنَا ۪ وَارْحَمْنَا ۪ اَنْتَ مَوْلٰىنَا فَانْــصُرْنَا عَلَي الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ

عنقریب اللہ تنگی و دشواری کے بعد آسانی پیدا کرے گا

صاحب ثروت اپنی وسعت کے مطابق خرچ کرے اور جس آدمی کے وسائل محدود ہوں وہ اس کے مطابق خرچ کرے جو اللہ نے اسے دیا ہے۔ اللہ کسی شخص پر اس سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا جو اس نے اسے دیا ہے۔ مشکل کے بعد اللہ جلد ہی راحت عطا کرے گا۔ Whoever has abundant means, let him spend according to his means; and he whose means are straitened, let him spend out of what Allah has given him. Allah does not burden any human being beyond the means that He has bestowed upon him. Possibly Allah will grant ease after hardship.

یہ لوگ جو باتیں بناتے ہیں ان پر صبر کرو

پس اے نبی ان کی باتوں پر صبر کرو۔ اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کرو سورج نکلنے سے پہلے اور غروب آفتاب سے پہلے۔ یعنی حقیقت یہ ہے کہ ہم نے اس ساری کائنات کو چھ دن میں بنایا ہے اور ہم آخر تک نہیں تھکے کہ ہم اس کو دوبارہ بنانے سے بے بس ہو جائیں اب اگر یہ جاہل لوگ یہ خبر سن کر آپ کا مذاق اڑائیں آپ سے مرنے کے بعد کی زندگی کا مطالبہ کرتے ہیں اور آپ کو دیوانہ کہتے ہیں، اس پر صبر کرتے ہیں، وہ جو بھی بکواس کرتے ہیں اسے ٹھنڈے دماغ سے سنتے ہیں، اور اس حق کی تبلیغ کرتے رہتے ہیں جس کو پھیلانے کے لیے آپ کو مقرر کیا گیا ہے۔ اس آیت میں یہودیوں اور عیسائیوں پر بھی ایک لطیف طعنہ دیا گیا ہے جب کہ بائبل میں یہ کہانی گھڑ لی گئی ہے کہ خدا نے زمین و آسمان کو چھ دنوں میں بنایا اور ساتویں دن آرام کیا (پیدائش 2:2۔ )۔ اگرچہ عیسائی پادری اب اس سے شرم محسوس کر رہے ہیں اور بائبل کے اپنے ترجمے میں آرام کو "کام کرنے سے روک دیا" میں تبدیل ہو گئے ہیں

جس نکاح میں خرچہ کم ہوگا اس میں برکت زیادہ ہوگی

یارے نبی الصلاة والسلام یہ فرمارہے ہیں کہ جس نکاح میں خرچہ کم ہوگا اس میں برکت زیادہ ہوگی تو میں گزارش کروں گا ان والدین سے جو اپنے بچوں کی شادی میں تاخیر کر رہے ہیں کہ اس معاملے مین وہ جلدی کریں اولاد کی اس معاملے میں حوصلہ افزائی کریں اور ان کے نکاح / شادی میں رکاوٹ بننے سے گریز کریں جو میں نے حدیث عبدالرحمٰن بن عوف کے تعلق سے بیان کی ہے اس پر آپ غور کریں عبدالرحمٰن بن عوف سے آپ نے یہ نہیں کہا کہ تم نے نکاح کرلیا اور مجھے بتایا ہی نہیں نکاح کی تقریب میں مجھے بلایا نہیں ۔۔۔۔۔نکاح مجھ سے نہیں پڑھوایا اور نہ عبدالرحمٰن بن عوف نے ایسی کوئی معزرت کی کہ ﷲ کے رسول میرے کچھ مسائل تھے جس کی وجہ سے آپ کو دعوت نہیں دے سکا یا نکاح میں آپ سے نہیں پڑھوا سکا یا میں آپ سے اس بارے میں مشورہ نہیں کر سکا ۔۔۔۔کوئی ایسی بات نہیں ہوئی تو اس سے پتہ چلا ولیمہ اور نکاح اپنی حیثیت کے مطابق کرنا چاہئیے ان چند لوگوں کو بلا لیا جائے جن کو بلانے کی آپ طاقت رکھتے ہیں اس کے لئے قرضہ لینے کی یا بہت زیادہ ٹینشن لینے کی ضرورت نہیں ﷲ تعالیٰ فرما تے ہیں

نمازِ استخارہ کی دعا تمام کاموں میں استخارہ

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں تمام کاموں میں استخارہ کرنے کی ایسے ہی تعلیم دیتے جیسے قرآن کریم کی کسی سورت کی تعلیم دیتے۔ آپ فرماتے: جب تم میں سے کوئی شخص کوئی کام کرنا چاہے تو فرض کے علاوہ دو رکعت نماز پڑھے، پھر یہ دعا پڑھے: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْٓ اَسْتَخِیْرُکَ بِعِلْمِکَ وَاَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ وَاَسْئَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِیْمِ فَاِنَّکَ تَقْدِرُ وَلَآ اَقْدِرُ وَتَعْلَمُ وَلَآ اَعْلَمُ وَاَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ، اَللّٰھُمَّ اِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ اَنَّ ھٰذَا الْاَمْرَ خَیْرٌ لِّیْ فِیْ دِیْنِیْ وَمَعَاشِیْ وَعَاقِبَۃِ اَمْرِیْ فَاقْدُرْہُ لِیْ وَیَسِّرْہُ لِیْ ثُمَّ بَارِکْ لِیْ فِیْہِ وَاِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ اَنَّ ھٰذَا الْاَمْرَ شَرٌّ لِّیْ فِیْ دِیْنِیْ وَمَعَاشِیْ وَعَاقِبَۃِ اَمْرِیْ فَاصْرِفْہُ عَنِّیْ وَاصْرِفْنِیْ عَنْہُ وَاقْدُرْ لِیَ الْخَیْرَ حَیْثُ کَانَ ثُمَّ اَرْضِنِیْ بِہٖ ’’اے اللہ! بے شک میں تجھ سے تیرے علم کے ساتھ بھلائی طلب کرتا ہوں اور تجھ سے تیری قدرت کے ساتھ طاقت طلب کرتا ہوں اور میں تجھ سے تیرے فضلِ عظیم کا سوال کرتا ہوں کیونکہ تو قدرت رکھتا ہے اور میں قدرت نہیں رکھتا، تو جانتا ہے اور میں نہیں جانتا اور تو غیبوں کو خوب جانتا ہے۔ اے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ بے شک یہ کام میرے لیے میرے دین، میرے معاش اور میرے انجام کار کے لحاظ سے بہتر ہے تو اس کا میرے حق میں فیصلہ کردے اور اسے میرے لیے آسان کردے، پھر میرے لیے اس میں برکت ڈال دے اور اگر تو جانتا ہے کہ بے شک یہ کام میرے لیے میرے دین، میرے معاش اور میرے انجامِ کار کے لحاظ سے بُرا ہے تو اسے مجھ سے دور کردے اور مجھے اس سے دور کردے اور میرے لیے بھلائی کا فیصلہ کردے جہاں بھی وہ ہو، پھر مجھے اس پر راضی کردے۔‘‘ صحیح البخاری، التھجد، باب ماجاء فی التطوع مثنی مثنٰی، حدیث:1162۔ ھٰذَا الْاَمْرَ ’’یہ کام‘‘ کہتے ہوئے، وہ اس کام کا نام بھی لے۔

خدا کی راہ میں مال خرچ کرو

الشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمَاتُ قِصَاصٌ فَمَنِ اعْتَدَى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَى عَلَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ (Al-Baqara : 194) ‎ادب کا مہینہ ادب کے مہینے کے مقابل ہے اور ادب کی چیزیں ایک دوسرے کا بدلہ ہیں۔ پس اگر کوئی تم پر زیادتی کرے تو جیسی زیادتی وہ تم پر کرے ویسی ہی تم اس پر کرو۔ اور خدا سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ خدا ڈرنے والوں کے ساتھ ہے ‎وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ وَأَحْسِنُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ (Al-Baqara : 195) ‎اور خدا کی راہ میں (مال) خرچ کرو اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو اور نیکی کرو بےشک خدا نیکی کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے

خدا کی خوشنودی کے لئے حج اور عمرے کو پورا کرو

وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ وَلَا تَحْلِقُوا رُءُوسَكُمْ حَتَّى يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِنْ رَأْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ فَإِذَا أَمِنْتُمْ فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَةٍ إِذَا رَجَعْتُمْ تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ ذَلِكَ لِمَنْ لَمْ يَكُنْ أَهْلُهُ حَاضِرِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ (Al-Baqara : 196) ‎اور خدا (کی خوشنودی) کے لئے حج اور عمرے کو پورا کرو۔ اور اگر (راستےمیں) روک لئے جاؤ تو جیسی قربانی میسر ہو (کردو) اور جب تک قربانی اپنے مقام پر نہ پہنچ جائے سر نہ منڈاؤ۔ اور اگر کوئی تم میں بیمار ہو یا اس کے سر میں کسی طرح کی تکلیف ہو تو (اگر وہ سر منڈالے تو) اس کے بدلے روزے رکھے یا صدقہ دے یا قربانی کرے پھر جب (تکلیف دور ہو کر) تم مطمئن ہوجاؤ تو جو (تم میں) حج کے وقت تک عمرے سے فائدہ اٹھانا چاہے وہ جیسی قربانی میسر ہو کرے۔ اور جس کو (قربانی) نہ ملے وہ تین روزے ایام حج میں رکھے اور سات جب واپس ہو۔ یہ پورے دس ہوئے۔ یہ حکم اس شخص کے لئے ہے جس کے اہل وعیال مکے میں نہ رہتے ہوں اور خدا سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ خدا سخت عذاب دینے والا ہے ‎الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَعْلُومَاتٌ فَمَنْ فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ يَعْلَمْهُ اللَّهُ وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى وَاتَّقُونِ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ (Al-Baqara : 197) ‎حج کے مہینے (معین ہیں جو) معلوم ہیں تو شخص ان مہینوں میں حج کی نیت کرلے تو حج (کے دنوں) میں نہ عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی برا کام کرے نہ کسی سے جھگڑے۔ اور جو نیک کام تم کرو گے وہ خدا کو معلوم ہوجائے گا اور زاد راہ (یعنی رستے کا خرچ) ساتھ لے جاؤ کیونکہ بہتر (فائدہ) زاد راہ (کا) پرہیزگاری ہے اور اے اہل عقل مجھ سے ڈرتے رہو ‎لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ فَإِذَا أَفَضْتُمْ مِنْ عَرَفَاتٍ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ وَاذْكُرُوهُ كَمَا هَدَاكُمْ وَإِنْ كُنْتُمْ مِنْ قَبْلِهِ لَمِنَ الضَّالِّينَ (Al-Baqara : 198) ‎اس کا تمہیں کچھ گناہ نہیں کہ (حج کے دنوں میں بذریعہ تجارت) اپنے پروردگار سے روزی طلب کرو اور جب عرفات سے واپس ہونے لگو تو مشعر حرام (یعنی مزدلفے) میں خدا کا ذکر کرو اور اس طرح ذکر کرو جس طرح اس نے تم کو سکھایا۔ اور اس سے پیشتر تم لوگ (ان طریقوں سے) محض ناواقف تھے ‎ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ وَاسْتَغْفِرُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (Al-Baqara : 199) ‎پھر جہاں سے اور لوگ واپس ہوں وہیں سے تم بھی واپس ہو اور خدا سے بخشش مانگو۔ بےشک خدا بخشنے والا اور رحمت کرنے والا ہے

ولیمہ اپنی حیثیت کے مطابق کرنا چاہئیے

حدیث سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ ولیمہ کرنا چاہئیے دوسرے نمبر پر یہ پتہ چلا کہ ولیمہ اپنی حیثیت کے مطابق کرنا چاہئیے آپ نے عبدالرحمٰن بن عوف رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے یہ نہیں کہا کہ بڑا ولیمہ کرو تمام صحابہ کرام کو بلایا جائے تمام انصار کو بلایا جائے تمام مہاجرین کو بلایا جائے بلکہ آپ نے کہا ولیمہ کرو چاہے ایک بکری کا کر لو تو اپنی اپنی حیثیت کے مطابق کرنا چاہئیے اور شادی میں جلدی کرنی چاہئیے اور والدین کو بھی چاہئیے اپنی اولاد کی شادی میں جلدی کریں کیوں کہ یہ اولاد ان کے پاس امانت ہے ان کی تربیت کے لئے وہ زمہ دار ہیں ان سے روز قیامت ان کے بارے میں سوال ہوگا اس لئے والدین کو اس بات کی فکر ہونی چاہئیے کہ ان کے بچے جلدی شادی کریں تاکہ وہ اپنے آپ کو پاکدامن رکھ سکیں اور تاکہ وہ گناہوں سے محفوظ رہ سکیں اس وجہ سے شادی میں تاخیر کرنا کہ شادی میں بہت زیادہ خرچہ کرنا ہے ، بہت بڑا ولیمہ کرنا ہے یہ شریعت کے مزاج کے مطابق نہیں ہے ۔۔۔۔والدین کو چاہیئے ۔۔۔۔!!! کہ اپنے اس بیٹے کی حوصلہ افزائی کریں جو شادی کرنا چایتا ہے اور سادہ سا ولیمہ کرنا چاہتا ہے اور اسی میں خیر ہے بلکہ نبی علیہ الصلاة والسلام کی احادیث سے یہی پتہ چلتا ہے کہ جس نکاح میں خرچہ کم یوگا اس میں برکت زیادہ ہوگی آجکل لوگ شادی کے موقع پر بہت زیادہ خرچ کرتے ہیں اور ان شادیوں کے نتائج کئی دفعه اچھےنہیں نکلتے

اہل ایران کے لیے بددعا کی کہ وہ بھی چاک شدہ خط کی طرح ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ صَالِحٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ بِكِتَابِهِ رَجُلًا وَأَمَرَهُ أَنْ يَدْفَعَهُ إِلَى عَظِيمِ الْبَحْرَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏فَدَفَعَهُ عَظِيمُ الْبَحْرَيْنِ إِلَى كِسْرَى، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا قَرَأَهُ مَزَّقَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَحَسِبْتُ أَنَّ ابْنَ الْمُسَيَّبِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَدَعَا عَلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُمَزَّقُوا كُلَّ مُمَزَّقٍ. اسماعیل بن عبداللہ نے ہم سے بیان کیا، ان سے ابراہیم بن سعد نے صالح کے واسطے سے روایت کی، انہوں نے ابن شہاب سے، انہوں نے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود ؓ سے نقل کیا کہ ان سے عبداللہ بن عباس ؓ نے بیان کیا کہ : رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو اپنا ایک خط دے کر بھیجا اور اسے یہ حکم دیا کہ اسے حاکم بحرین کے پاس لے جائے۔ بحرین کے حاکم نے وہ خط کسریٰ (شاہ ایران) کے پاس بھیج دیا۔ جس وقت اس نے وہ خط پڑھا تو چاک کر ڈالا (راوی کہتے ہیں) اور میرا خیال ہے کہ ابن مسیب نے (اس کے بعد) مجھ سے کہا کہ (اس واقعہ کو سن کر) رسول اللہ ﷺ نے اہل ایران کے لیے بددعا کی کہ وہ (بھی چاک شدہ خط کی طرح) ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں۔ Narrated Abdullah bin Abbas (RA): Once Allahs Apostle ﷺ gave a letter to a person and ordered him to go and deliver it to the Governor of Bahrain. (He did so) and the Governor of Bahrain sent it to Chousroes, who read that letter and then tore it to pieces. (The sub-narrator (Ibn Shihab (RA)) thinks that Ibn Al-Musaiyab said that Allahs Apostle ﷺ invoked Allah against them (saying), "May Allah tear them into pieces, and disperse them all totally.)"