جرابوں پر مسح اور اس سے متعلق دلائل

رسول اللّٰــــــہ ﷺ نے وضوء کرتے وقت اپنی جرابوں پر مسح کیا اور جوتیوں پر۔ صحيح احاديث سے ثابت ہے كہ مقيم شخص كے ليے ايك رات اور دن اور مسافر كے ليے تين راتيں اور تين دن موزوں پر مسح كرنا جائز ہے، اور جرابوں پر مسح كرنا موزوں پر مسح كرنے كى طرح ہى ہے " تم ابن ابى طالب كے پاس جا كر اس كے متعلق دريافت كرو، كيونكہ وہ نبى كريم صلى اللّٰــــــہ عليہ وسلم كے ساتھ سفر كيا كرتے تھے، چنانچہ ہم نے ان سے دريافت كيا تو انہوں نے فرمايا " رسول كريم صلى اللّٰــــــہ عليہ وسلم نے مسافر كے ليے تين راتيں اور تين دن 🏠 اور مقيم شخص كے ليے ايك رات اور دن مدت مقرر كى " صحيح مسلم حديث نمبر ( 276 ) اور امام ترمذى، ابو داود، اور ابن ماجہ نے خزيمہ بن ثابت انصارى رضى اللّٰــــــہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ: نبى كريم صلى اللّٰــــــہ عليہ وسلم سے موزوں پر مسح كے متعلق دريافت كيا گيا تو آپ صلى اللّٰــــــہ عليہ وسلم نے فرمايا " مسافر كے ليے تين 🏠اور مقيم كے ليے ايك روز " سنن ترمذى حديث نمبر ( 95 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 157 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 553 ) علامہ البانى رحمہ اللّٰہ تعالى نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے امام ترمذى، نسائى اور ابن ماجہ نے صفوان بن عسال رضى اللّٰــــــہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے: " رسول كريم صلى اللّٰــــــہ عليہ وسلم ہميں حكم ديا كرتے كہ جب ہم سفر ميں ہوں تو اپنے موزے تين رات اور تين نہ اتارا كريں، پيشاب پاخانہ اور نيند كى بنا پر نہيں بلكہ جنابت كى وجہ سے اتار ديں " سنن ترمذى حديث نمبر ( 96 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 127 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 478 ) علامہ البانى رحمہ اللّٰہ تعالى نے اس حديث كو حسن قرار ديا ہے اور شيخ الاسلام ابن تيميہ كہتے ہيں: " جب رسول كريم صلى اللّٰــــــہ عليہ وسلم نے موزوں پر مسح كرنے كا حكم مطلقا ديا ہے، حالانكہ انہيں علم تھا جو عادتا ہوتا ہے، اور آپ صلى اللّٰــــــہ عليہ وسلم نے عيوب سے سلامت ہونے كى شرط نہيں لگائى، تو ان كے حكم كو مطلقا ركھنا واجب ہے، اور كسى شرعى دليل كے بغير نبى كريم صلى اللّٰــــــہ عليہ وسلم كى كلام ميں كوئى قيد نہيں لگانى جائز نہيں. نبى كريم صلى اللّٰــــــہ عليہ وسلم كے الفاظ كا تقاضا ہے كہ لوگ جو موزے پہن كر چلتے ہيں ان ميں انہيں مسح كرنے كى اجازت ہے، چاہے وہ كھلے ہوں يا پھٹے ہوئے اس ميں كوئى مقدار كى تحديد نہيں ہو سكتى اس كے ليے دليل كى ضرورت ہے ... "