میاں بیوی کا ایک دوسرے کو اس کی وفات کے بعد دیکھنا اور نہلانا

ہم آواگون کے قائل نہیں کہ جس کی بنیاد پر یہ کہیں کہ میاںبیوی کا رشتہ سات جنموں تک رہتا ہے مگر یہ ضرورمانتے ہیں کہ یہ رشتہ اتنا کمزور بھی نہیں ہوتا کہ ان میں سے کسی ایک کی وفات کے ساتھ ہی وہ ایک دوسرے کے لئے اجنبی ہوگئے۔ اب ان میں سے کسی ایک کا دوسرے کی طرف دیکھنا ناجائزاورحرام ہے۔ آج ہم برصغیر ہندوپاک میں خصوصاً اوردیگر جگہوں پر عموماً پائی جانے والی اس جہالت پر گفتگو کریں گے جس کو لوگوں نے دین کے نام پر فروغ دے دیا ہے، وہ ہے بیوی کے مرنے کے بعد شوہر کو بیوی کا چہرہ دیکھنے سے منع کرنا ۔ جب جہالت کی یہ حالت ہو تو یہ کیسے سمجھا جاسکتا ہے کہ کوئی شوہر کو یہ اجازت دے سکتا ہے کہ وہ اپنی بیوی کو غسل دے۔ حالانکہ اس تعلق سے صریح احادیث موجود ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ شوہر بیوی کو اس کے انتقال کے بعد غسل دے سکتا ہے اگر چہ کوئی عورت موجودہو ۔ اسی طرح بیوی اگر چاہے تو شوہر کو غسل دے سکتی ہے اگرچہ کوئی آدمی نہلانے والا موجود ہو۔ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: رجع الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من جنازة بالبقیع وانا اجد صداعاً فی راسی واقول واراساہ! فقال : بل انا وارساہ! ماضرک لومت قبلی فغلستک، وکفنتک، ثم صلیت علیک ودفنتک۔ ”رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بقیع میں ایک شخص کی صلاة جنازہ پڑھاکر میرے پاس آئے۔ اس وقت میرے سر میں زور کا درد ہورہا تھا جس کی وجہ سے میں کراہ رہی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھ کر فرمایا : تمہیں کیا پریشانی ہے؟ اگر تم مجھ سے پہلے انتقال کرجاتیںمیں تمہیں اپنے ہاتھوں سے نہلاتا، خود کفن پہناتا، پھر تمہاری صلاة جنازہ پڑھ کر تمہیں دفناتا۔“ تخریج اس حدیث کو ابن ماجہ نے کتاب الجنائز باب مرض النبی صلی اللہ علیہ وسلم رقم 6586، 1466،بیہقی نے کتاب الجنائز باب الرجل یغسل امراتہ اذا ماتت رقم 645 میں درج کیا ہے، اور اس کے علاوہ احمد نے اپنی مسند6:288 میں دارمی نے اپنی مسند1:37-38 میں، دارقطنی نے اپنی سنن 192 میں اورابن ہشام نے السیرة میں 4:643 نے میں اس حدیث کو نقل کیا ہے۔ سبھوں نے اس حدیث کو محمد بن مسلمہ عن محمد بن اسحاق عن یعقوب بن عتبہ عن الزہری عن عبیداللہ بن عبداللہ عن عائشةکی سند سے بیان کیا ہے۔ حدیث کا درجہ حدیث صحیح ہے، علامہ البانی رحمہ اللہ احکام الجنائز وبدعہا میں کہتے ہیں کہ سند میں اگر چہ محمد بن اسحاق ہیں (جو کہ مدلس ہیں) اورعنعنہ کے ذریعہ روایت کررہے ہیں مگر چونکہ سیرة ابن ہشام میں تحدیث کی صراحت کردی گئی ہے۔ لہذا حدیث ثابت ہے۔ (دیکھیں:احکام الجنائزص50) ہیثمی نے مجمع الزوائد میںکہا ہے: اسناد رجالہ ثقات رواہ البخاری من وجہ آخر مختصراً یعنی اس کے رجال ثقہ ہیں بخاری نے اسے ایک دوسرے طریق سے اختصار کے ساتھ بیان کیا ہے۔ کیا شوہر اپنی بیوی کو مرنے کے بعد غسل دے سکتا ہے؟ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث اوپر گذرچکی ہے جس کے اندر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ہے کہ اگر میری زندگی میں تم مرگئیں تو میں تمہیں غسل دوںگا، یہ حدیث واضح طور پر دلالت کرتی ہے کہ شوہر اپنی بیوی کو غسل دے سکتا ہے۔ لہذاجو لوگ یہ کہتے ہیں کہ شوہر بیوی کو غسل نہیں دے سکتا اس وجہ سے کہ مرنے کے بعد نکاح ٹوٹ جاتا ہے ان کی بات صحیح نہیں ۔ کچھ لوگ عورتوں کو اپنے شوہروں کو غسل دینے کی اجازت دیتے ہیں اور مردوں کو نہیں وہ بعض لوگ یہ فرق کرتے ہیں کہ نکاح دونوں صورتوں میں ٹوٹ جاتا ہے خواہ شوہر مرے یا بیوی مگر شوہر کے مرنے کی صورت میں بیوی عدت میں ہوتی ہے اس وجہ سے وہ غسل دے سکتی ہے جب کہ بیوی کی موت کی صورت میں چونکہ شوہر کے لےے کوئی عدت نہیں ہوتی اس وجہ سے اس کے لئے بیوی اجنبی عورت کے مانند ہوگئی لہذا وہ غسل نہیں دے سکتا۔ (دیکھیں الفقہ علی المذاہب الا ¿ربعہ1:504) اس توجیہ کے بارے میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کہاجاسکتا کہ یہ شرعی احکام کو پہیلی بنانے کے مترادف ہے۔ دین سہل اور آسان ہے اس میں اگر ایسا ہو تو ویسا ہوگا کہ ذریعہ پیچیدگی پیداکرنا کوئی مستحسن قدم نہیں قراردیا جاسکتا۔ صحابہ کرام کا عمل عائشہ رضی اللہ عنہا کی مذکورہ بالا حدیث کی تائید صحابہ ¿ کرام کے عمل سے بھی ہوتی ہے ۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے باقاعدہ وصیت کی تھی کہ ان کے مرنے کے بعد ان کے شوہر علی رضی اللہ عنہ غسل دیں چنانچہ انہوں نے غسل دیا: عن ام جعفر ان فاطمة بنت رسول اللہ قالت: یا اسماء اذا انا مت فاغسلینی انت وعلی بن ابی طالب فغسلہا علی واسماءرضی اللہ عنہما (بیہقی کتاب الجنائز باب الرجل یغسل امراتہ اذا ماتت رقم 6452) ”ام جعفر بیان کرتی ہیں کہ فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسماء(جوکہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیوی ہیں) سے کہا کہ جب میں مرجاﺅں تو تم اور علی مجھے غسل دینا چنانچہ علی اور اسماءنے انہیں غسل دیا۔ “ سنن بیہقی 6453کی روایت میں ہے کہ ام جعفر بنت محمد بن علی کہتی ہیں کہ مجھ سے اسماءبنت عمیس نے کہا کہ میں نے اور علی بن ابی طالب نے فاطمہ بنت رسول اللہ کو غسل دیا۔ یہ بات صحابہ کرام کے درمیان ہوئی مگر ان میں سے کسی نے بھی اس کی مخالفت نہ کی، اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی چہیتی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں یہ بات نہیں کہی جاسکتی کہ انہوں نے کسی غلط بات کی وصیت کی ہو اور اس وصیت کی تنفیذ بھی کرنے والے ایک اعلی درجہ کے صحابی، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے داماداور تیسرے خلیفہ راشد علی رضی اللہ عنہ ہیں۔ لہذا ضروری سی بات ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی اجازت کے بارے میں سنا ہوگا۔ کیا بیوی شوہر کو غسل دے سکتی ہے جو علماءشوہر کو یہ اجازت نہیں دیتے کہ وہ اپنی عورت کو مرنے کے بعد غسل دے ان میں سے بھی اکثر اس بات کے قائل ہیں کہ بیوی شوہر کے مرنے کے بعد غسل دے سکتی۔ اس کی وجہ خواہ اپنے گمان کے مطابق یہ بتائیں کہ عورت کی حالت اس وقت عدت گزارنے والی کی ہوتی ہے لہذا اسکے لئے شوہر کو نہلانا جائز ہوگا یاکوئی اور وجہ بتائیں۔ اس تعلق سے بھی واضح احادیث ملتی ہیں چنانچہ عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں: لما ارادوا غسل النبی صلی اللہ علیہ وسلم قالوا: واللہ ماندری، انجرد رسول اللہ ثیابہ کما نجرد موتانا، ام نغسلہ وعلیہ ثیابہ؟ فلما اختلفوا القی اللہ علیہم النوم، حتی مامنہم رجل الا وذقنہ فی صدرہ،ثم کلم مکلم من ناحیة البیت، لایدرون من ہو: ا ¿ن اغسلوا لنبی صلی اللہ علیہ وسلم وعلیہ ثیابہ ،فقاموا الی رسول اللہ فغسلوہ، وعلیہ قمیصہ یصبون الماءفوق القمیص ویدلکونہ بالقمیص دون ایدیہم وکانت عائشة تقول: لواستقبلت من امری مااستدبرت ماغسلہ الا نساءہ۔ ©”جب لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل دینے کا ارادہ کیا تو انھوں نے کہا: ہمیں نہیں معلوم کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دوسرے مردوں کی طرح ننگا کرکے نہلائیں؟ یا ہم آپ کو کپڑوں سمیت غسل دیں؟جب صحابہ کرام نے اختلاف کیا تواللہ تعالی نے ان پر نیند طاری کردی۔یہاں تک وہاں موجود تمام لوگوں کی ٹھوڑی ان کے سینوں سے لگ گئی۔ پھر ایک بات کرنے والے نے گھر کے ایک گوشہ سے کہا (لوگ نہیں جانتے تھے کہ وہ کون ہے) نبی کریم کو کپڑوں سمیت غسل دو۔لوگ کھڑے ہوئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل دیا ۔آپ کے جسم پر قمیص تھی۔ لوگ قمیص کے اوپر ہی سے پانی ڈالتے اور قمیص ہی سے رگڑتے تھے بغیر ہاتھوں کو لگائے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کہا کرتی تھیں:جو بات بعد میں معلوم ہوئی اگر پہلے معلوم ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی بیویوں کے علاوہ کوئی اور غسل نہیں دیتا۔“ (سنن ابی داود کتاب الجنائز باب فی سترالمیت عند غسلہ رقم 1341،ابن ماجہ کتاب الجنائز باب غسل الرجل امراة وغسل المرا ¿ة زوجہا رقم 1464 ،صحیح ابن حبان کتاب الجنائز باب ذکر وصف القوم الذین غسلوارسول اللہ رقم 6627 اور 6413 و6457، حاکم نے مستدرک (3:59-60) میں اس کی تخریج کرنے کے بعد کہا ہے کہ یہ صحیح مسلم کی شرط پر ہے۔ علامہ البانی نے صحیح سنن ابی داود میں اس حدیث کو حسن قراردیا ہے) صاحب عون المعبود کہتے ہیں: ”گویا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس واقعہ کے بعد غور کیا اورانہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ بات یاد آئی کہ آپ نے کہا تھا کہ اگر تم میری زندگی میں وفات پاگئیں تو میں تمہیں غسل دوں گا کفن دوں گا پھر تمہاری صلاةجنازہ پڑھوں گا اور دفن کروں گا۔“(عون المعبود۸۵۱۴) صحابہ کرام کے عمل سے بھی اس کو مزید تقویت ملتی ہے۔ موطا امام مالک کی حدیث ہے کہ اسماءبنت عمیس جوکہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں انہوںنے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کوغسل دیا پھر باہر آئیں اور دریافت کیا کہ میں روزہ سے ہوں اورآج سخت سردی ہے کیا میرے اوپر غسل کرنا واجب ہے لوگوں نے کہا کہ نہیں۔ (موطا امام مالک کتاب الجنائز باب غسل ا لمیت، سنن بیہقی 6455کی روایت میں ہے کہ اسماءبنت عمیس نے کمزوری کی وجہ سے عبدالرحمان بن ابی بکر سے مدد لی تھی مگر بیہقی نے کہا ہے کہ اس کی سند ضعیف ہے۔ ) حدیث کے الفاظ جیسا کہ ظاہر ہے، بتلارہے ہیں کہ یہ کام صحابہ کرام کی موجودگی میں ہواتھا لہذا انہیں اس کا ضرور علم ہواہوگا مگر ان میں سے کسی نے بھی اس کی مخالفت نہیں کی۔ لہذا بیوی کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ مرنے کے بعد شوہر کو غسل دے۔ شوہر اور بیوی میں فرق؟ میت کو نہلانے میں اجازت دینے اور نہ دینے میںبیوی اور شوہر کافرق کرنا صحیح نہیں، اس فرق کی بنیاد ایک ظنی چیز پر ہے کہ مرنے کے بعد نکاح ٹوٹ جاتا ہے پھر یہ فرق کہ عورت چونکہ طلاق کے بعدعدت کے ایام گذارتی ہے لہذا اس کے لئے جس طرح عدت کے ایام میں اگر وہ طلاق رجعی ہو تو شوہر کے ساتھ رہنا جائز تھا اسی طرح اسی صورت میں بھی جائز ہے صحیح نہیں۔ اس لئے کہ طلاق رجعی میں شوہر کے ساتھ رہنے کی اجازت اس وجہ سے دی گئی ہے کہ ہوسکتا ہے کہ بیوی کابار بار سامنا ہونے کی وجہ سے شوہر رجوع کرے مگر کیا مرنے کے بعد بھی اس کا امکان ہے؟ ضروری سی بات ہے کہ نہیں۔ لہذا اس کی بنیاد پر یہ بات کیسے کہی جاسکتی ہے؟ کیا موت سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے؟ ہمارے یہاں نکاح کو اتنا کمزور سمجھاجاتا ہے کہ وضو کی طرح بات بات پر نکاح کے ٹوٹنے کی بات کہی جاتی ہے بلکہ یہ کہا جائے کہ نکاح ٹوٹنا وضو سے بھی زیادہ آسان ہے، تو بے جانہ ہوگا چنانچہ جس کے ساتھ آدمی پوری زندگی گذارتا ہے اس کی موت کے ساتھ ہی اس کو اجنبی بنادیا جاتا ہے ۔کتنے اچنبھے کی بات ہے؟ ہم ذیل کے سطور میں ان اسباب کو بیان کریں گے جس کی وجہ سے شوہر کے مرنے کے بعد اس کی بیوی کو طلاق شدہ ماننا صحیح نہیں مندرجہ ذیل وجوہ کی بنیاد پر غلط ہے: ۱۔اگر ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ موت سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے تو ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ زوجین میں سے کسی کو بھی کسی کی میراث نہ ملے اس لئے کہ میراث اسی وجہ سے ملتی ہے کہ وہ بیوی یا شوہر ہے،جب یہ رشتہ ہی منقطع ہوگیا تو وراثت ملنے کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ خاص طور پر اس عورت کو بالکل ہی نہیں ملنا چاہیے جس کو دوطلاقیں ہوگئی ہوں اس وجہ سے کہ اس کے حق میں شوہر کی موت سے تیسری طلاق ہوجائے گی۔ لہذا یہ کہنا کہ نکاح ٹوٹ جاتا ہے سراسر غلط بے بنیاد اور جہالت پر مبنی قول ہے۔ ۲۔زوجین میں سے ہرایک کے دوسرے کو غسل دینے کی اجازت اس سے بھی سمجھ میں آتی ہے کہ یہ رشتہ ایسا ہوتا ہے کہ اس کا مقابلہ دوسرے کسی بھی رشتہ سے نہیں کیا جاسکتا۔ شرمگاہ کا دیکھنا ان دونوں کے علاوہ کسی اورکے لئے جائز نہیں۔ جب دوسرے لوگ جن کے لئے زندگی میں شرمگاہ دیکھنا جائز نہیں تھا وہ غسل دے سکتے ہیں تو وہ شخص بدرجہ اولی غسل دے سکتا ہے جس کے لئے زندگی میں شرمگاہ دیکھنا جائز تھا۔ فتاوی لجنہ دائمہ کی رائے: سعودی عرب کی فتاوی کمیٹی سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا کوئی عورت اپنے شوہر کو اس کی موت کے بعد دیکھ سکتی ہے یا اس کے لئے دیکھنا حرام ہے اور کیا وہ اسے غسل دے سکتی ہے اگر کوئی دوسرا موجود نہ ہو؟ اس کے جواب میں کمیٹی نے جواب دیا کہ :عورت کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنے شوہر کو جب اس کا انتقال ہوگیا ہو دیکھے اور صحیح قول کے مطابق زوجین میں سے ہر کوئی دوسرے کو غسل دے سکتا ہے اگر چہ کوئی دوسرا موجود ہو۔ (فتاوی اللجنة الدائمة رقم الفتوی 2273) خلاصہ کلام خلاصہ کلام یہ کہ شوہر اپنی بیوی کی وفات کے بعد اسے دیکھ سکتا ہے اوراگر وہ چاہے تو نہلاسکتا ہے اسی طرح بیوی بھی شوہر کو دیکھ سکتی اور نہلاسکتی ہے۔ اس وجہ سے کہ اس سے منع کرنے کی کوئی دلیل نہیں ہے اور جب غسل دینے کی اجازت ہے تو دیکھنے کی اجازت بدرجہ اولی ہے۔ اللہ تعالی ہمیں دین کو سمجھنے کی توفیق دے اور ہمیں دینی امور میں اپنی طرف سے کوئی بات کہنے سے بچائے۔ آمین۔